پڑھیے ایک ایسے شخص کے بارے میں جس کے افکار مشرق سے لے کر مغرب تک پھیلے۔
آپ نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ ایک مکمل مذہبی گھرانا تھا۔ آپ کے والد اور والدہ دونوں کی زندگی مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس آپ کے والد نے اپنے بیٹے کو براہ راست اپنی نگرانی میں رکھا اور ان کی تعلیم کا انتظام گھر پر کیا تاکہ ساتھ ساتھ تربیت بھی ہوسکے۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں لکھنے کی زبردست قابلیت عطا کی تھی چناں چہ انھوں نے ارادہ کر لیا کہ قلم کے ذریعے ہی اپنے خیالات لوگوں تک پہنچائیں گے، چناں چہ ایک صحافی کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز کیا اور پھر متعدد اخبارات میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا، جن میں اخبار مدینہ بجنور (یوپی)، تاج جبل پور اور جمعیت علماے ہند کا روزنامہ ’الجمعیتہ‘ دہلی خصوصی طور پر شامل ہیں۔
جس زمانے میں آپ اس دور کے مشہور اخبار کے مدیر تھے، ایک شخص سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی، جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہندو بنا لیا جائے چوں کہ اس تحریک کی بنیاد نفرت، دشمنی اور تعصب پر تھی۔ اسی لیے اس نے اپنی کتاب میں حضور اکرم کی توہین کی تھی، جسے کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لیے کسی مسلمان نے غیرت ایمانی میں آکر سوامی شردھانند کو قتل کر دیا، جس پر پورے ہندستان میں ایک شور برپا ہوگیا اور اعلانیہ یہ کہا جانے لگا کہ اسلام تلوار اور تشدد کا مذہب ہے۔
آپ اس صورت حال پر بہت رنجیدہ تھے۔ انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے دہلی کی جامع مسجد میں تقریر کی، جس میں بڑی درد مندی کے ساتھ انھوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے متعلق جو غلط فہمیاں آج پھیلائی جارہی ہیں، وہ ختم ہوجائیں۔ چناں چہ آپ نے سوچا کہ کیوں نہ یہ کام میں کروں….
آپ نے کڑی محنت اور وسیع مالعہ کرکے ’الجہاد فی الاسلام ‘کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس وقت آپ کی کی عمر ۴۲ برس تھی، اس عمر میں ایسی معرکة الآراءکتاب آپ کا عظیم الشان کارنامہ تھا، جس پر ہر طرف سے آپ کو داد موصول ہوئی۔ اس کتاب کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا: ”اسلام کے نظریہ جہاد پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے۔“
دہلی شہر کے ایک شریف گھرانے میں پیدا ہونے والے اس شخص کو دنیا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے نام سے جانتی ہے۔ سید مودودیؒ کا سن ولادت ۱۲۳۱ھ بمطابق ۳۰۹۱ءہے۔ آپ کی جاے پیدائش اورنگ آباد دکن اور آبائی تعلق سادات کے ایک ایسے خاندان سے ہے جو ابتدا میں ہرات کے قریب چشت کے معروف مقام پر آکر آباد ہوا تھا۔ اس خاندان کے ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی تھے۔ انہی کے نام سے منسوب ہوکر ہی ان کا خاندان ’مودودی ‘کہلاتا ہے۔
٭….٭
سن ۳۵۹۱ءمیں جب ملک میں پہلی قادیانی سازش ہوئی تو مسلمانوں کا اس حوالے سے یہ مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ اس موقع پر سید مودودیؒ نے قادیانی مسئلہ کے نام سے ایک چھوٹی سی کتاب لکھ کر اصل مسئلے کو واضح کیا اور ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ یہ ایک دستوری مسئلہ ہے، اس پر فساد اور خون خرابی کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے دستور کے ذریعے حل کیا جائے لیکن حکومت ِوقت کی نااہلی کے باعث فساد پھوٹ پڑے اور ہزاروں مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کر دیا گیا۔
اسی سلسلے میں سید مودودی کو بھی قادیانی مسئلہ نامی کتابچہ لکھنے کے جرم میں گرفتار کرلیا اور پھر فوجی عدالت کے ذریعے سزاے موت کا حکم سنا دیا۔ پورے ملک میں حکومت کے اس فیصلہ پر ناراضی کا اظہار کیا گیا، بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں جلوس نکالے گئے۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کی بے شمار شخصیتوں نے اس سزا کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔
جب ان کے ساتھیوں نے جیل میں ان سے پوچھا کہ کیا حکومت کے فیصلے کے خلاف آپ کی طرف سے رحم کی اپیل دائر کی جائے تو انھوں نے کوٹھڑی میں کھڑے ہو کر فرمایا: ”نہیں…. ہر گز میں یہ نہیں چاہتا کہ میری طرف سے یا میرے خاندان کے کسی فرد کی طرف سے یا خود جماعت کی طرف سے کوئی رحم کی درخواست پیش کی جائے۔“ پھر انھوں نے اپنے بیٹے عمر فاروق کو تسلی دیتے ہوئے کہا: ”بیٹا! ذرا نہ گھبرانا! اگر میرے پروردگار نے مجھے اپنے پاس بلانا منظور کرلیا ہے تو میں بخوشی اپنے رب سے جاملوں گا اور اگر اس کا حکم ابھی نہیں آیا تو پھر چاہے لوگ اُلٹے لٹک جائیں، مجھ کو نہیں لٹکا سکتے۔“
٭….٭
قائداعظم، سید مودودیؒ کو ایک نیک مخلص اور قابل انسان سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ کچھ افراد نے قائداعظم سے پوچھا کہ مودودی کیسا آدمی ہے؟ تو قائد اعظم نے جواب دیا کہ وہ ایک مخلص اور قابل شخص ہیں۔
سید مودودیؒ نے پاکستان ریڈیو پر بھی بہت سی تقریریں کیں اور مسلمانوں کو اس بات کی طرف دعوت دی کہ وہ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جدوجہد کریں۔
بعد ازاں انھیں مدینہ یونیورسٹی کی جانب سے اسی سلسلے میں مدعو کیا گیا۔ آپ اس یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کے رکن رہے اور آپ رابطہ عالم اسلامی کی فاﺅنڈیشن کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ اس کے علاوہ اکیڈمی آف ریسرچ آن اسلامک لاءمدینہ کے بھی رکن تھے۔ سید مودودیؒ مسلمانوں کے لیے ایک مینارہ نور تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کی فکر کو متاثر کیا ہے، نظریے کی اہمیت، ضرورت حفاظت اور افادیت پر زور دیا۔
سید مودودیؒ کا شمار صفِ اوّل کے نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔ آپ نے متعدد موضوعات پر کتابیں لکھیں، جن سے مسلمانوں کو اسلام کے متعلق سمجھنے میں آسانی پیدا ہوئی۔ آپ کی کتابیں اُردو کے علاوہ برصغیر کی تمام بڑی زبانوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی بھی بڑی زبانوں میں ترجمہ کی گئیں۔
دنیا ایک عظیم اسلامی مفکر، پختہ عزم مسلمان، اسلامی رہنما اور ایک عظیم مصنف کی حیثیت سے برسوں یاد رکھے گی۔
سید مودودیؒ کا انتقال گردے کے عارضے میں مبتلا رہنے کی وجہ سے ۶۷ءبرس کی عمر میں ۲۲ ستمبر ۹۷۹۱ءکو ہوا۔آپ کا نمازِ جنازہ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں مصر کے ممتاز عالم دین علامہ یوسف القرضاوی نے پڑھایا۔
٭….٭
نئے الفاظ
جماعت: لوگوں کو ایک مقصد کے تحت جمع کرنا، تنظیم
تحریک: کسی خیال کو لوگوں تک پہنچانا
مفکر: بہت غور و فکر کرنے والا
افادیت: فائدہ مند ہونا