پرانے زمانے کے بچے مجھے جانتے تھے لیکن نئے زمانے کے بچے مجھے نہیں جانتے۔‘‘ ریت کی پری نے کہا’’

امی، ابو کسی ضروری کام سے اُن دنوں لندن گئے ہوئے تھے اور پانچوں بچے گھرمیں سخت بور ہورہے تھے۔
یہ سارہ تھی، جس نے ساحل پر جا کر ریت کے قلعے بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔ ان کا گھر سمندر کے کنارے پر تھا۔ پانچوں بچے بہت دیر تک ساحل پر کھدائی کرکے قلعے بناتے رہے لیکن جلد ہی سب اس کھیل سے بور ہوگئے سواے اینا کے جو ابھی بھی کھدائی کررہی تھی۔
کھدائی کرتے کرتے وہ اچانک چلائی: ’’ارے! اِدھر آئو تم سب! میں نے ابھی یہاں ایک بہت عجیب سی چیز کی جھلک دیکھی تھی، کوئی چھوٹی سی فَر والی چیز تھی، لیکن وہ فوراً ہی غائب ہوگئی۔‘‘
اینا کی بات سن کر اس کے بہن بھائی، اس کے قریب آگئے۔
’’ضرور کوئی چوہا یا سانپ ہوگا۔‘‘ رابرٹ نے کہا۔
’’نہیں! کچھ اور تھا۔‘‘ اینا نے مزید کھدائی کرتے ہوئے کہا۔
سب بچے اس کے گرد جمع ہوگئے۔ اچانک ریت میں سے آواز آئی: ’’ارے بھئی! مجھے سکون سے رہنے دو۔‘‘
سب بچے حیرت سے اُچھل پڑے۔ پھر رابرٹ نے ہمت کرکے کہا: ’’تم کون ہو؟ ہم تمھیں دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’اوہ اچھا! تو لو، یہ دیکھو۔‘‘ اس جملے کے ساتھ ہی ایک دَم ریت اُڑنے لگی اور پھر ریت کے نیچے سے ایک بالوں بھری بھوری چیز برآمد ہوئی۔ یہ بہت عجیب مخلوق تھی۔ اس کی آنکھیں اس کے سینگوں پر موجود تھیں، اس کے کان چمگادڑ جیسے تھے، جسم مکڑی جیسا اور بالوں سے ڈھکا ہوا تھا، ہاتھ پائوں بندر سے مشابہ تھے۔
’’تم کون ہو؟‘‘ سب بچے بیک وقت چلائے۔
’’اوہ! تم لوگ مجھے نہیں جانتے؟ میں ریت کی پَری ہوں۔‘‘ بھوری چیز نے کہا۔
بچوں کے تابڑ توڑ سوالوں کے جواب میں پری نے انھیں بتایا کہ وہ ایک ہزار سال سے ریت کے نیچے سورہی تھی۔ پرانے زمانے میں لوگ اپنے بچوں کو ساحل سمندر پر بھیج کر روز ایک خواہش پوری کرواتے تھے لیکن نئے زمانے کے لوگ ریت کی پری کے وجود سے بھی واقف نہیں ہیں، لہٰذا اب میں آرام سے سوتی رہتی ہوں۔
اینا نے فوراً سوال کیا: ’’کیا آپ اب بھی خواہشات پوری کرسکتی ہے؟‘‘
ریت کی پری نے جواب دیا: ’’ہاں… لیکن ایک دن میں صرف ایک خواہش پوری ہوسکتی ہے اور اس خواہش کا اثر سورج ڈھلنے پر جاتا رہے گا۔‘‘
اینا یہ سن کر جھٹ سے بولی: ’’میری خواہش ہے کہ ہم چاروں بے حد خوب صورت ہوجائیں۔‘‘
ریت کی پری منھ ہی منھ میں کچھ بڑبڑائی، اس کی گول گول آنکھیں اندر باہر ہوئیں اور وہ چاروں بچے خوب صورت شکل اختیار کرگئے۔ سب کی آنکھیں نیلی اور بال سنہرے ہوگئے۔ ناک نقشہ بھی بالکل بدل کر رہ گیا۔ ابھی وہ حیران ہو کر ایک دوسرے کو تَک ہی رہے تھے کہ ریت کی پری واپس ریت میں گھس گئی۔
بچے خوشی، خوشی اپنے سب سے چھوٹے بھائی کو گود میں اٹھانے آئے جو اس سارے عرصے میں ایک ٹیلے پر بیٹھا ہوا تھا لیکن وہ اس قدر تبدیل ہوچکے تھے کہ ان کا چھوٹا بھائی ’ لیمب‘ انھیں پہچان نہیں سکا اور چیخ چیخ کر رونے لگا۔
انھوں نے بڑی مشکل سے بہلا پھسلا کر اُسے گود میں اٹھایا اور گھر کی طرف چل دیے لیکن گھر کی ملازمہ نے بھی انھیں پہچاننے سے انکار کردیا۔ اس نے لیمب کو ان کی گود سے چھین لیا اور یہ دھمکی دیتے ہوئے دروازہ بند کردیا کہ اگر آیندہ وہ اس گھر کے اردگرد چکر لگاتے ہوئے بھی نظر آئے تو وہ ان کی پولیس میں رپورٹ کردے گی۔ لہٰذا وہ سارا دن بھوکے پیاسے گھر سے باہر گھومتے رہے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔
سورج غروب ہوتے ہی خواہش کا اثر ختم ہوگیا اور وہ سب پہلے جیسے ہوگئے۔ اب انھوں نے گھر کا دروازہ بجایا تو ملازمہ نے دوازہ کھول کر انھیں اندر بلا لیا اور خوب ڈانٹا کہ وہ سب پورا دن گھر سے باہر کہاں غائب رہے۔ ملازمہ نے انھیں چار اجنبی بچوں کے بارے میں بھی بتایا جو ان کے چھوٹے بھائی کو گود میں لے کر گھوم رہے تھے۔ اس نے انھیں مزید ڈانٹا کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کا خیال نہیں رکھتے۔
سب بہن بھائیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا لیکن خاموش رہے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ملازمہ ان کی کسی بات پر یقین نہیں کرے گی۔
٭…٭
اگلے دن بچے ساحل پر دوسری خواہش کرنے گئے۔
’’ہماری آج کی خواہش یہ ہے کہ ہم بے حد امیر ہوجائیں، کسی کے خواب و خیال سے بھی زیادہ امیر!‘‘ جین نے کہا۔
ان کی یہ خواہش بھی پوری ہوئی اور ان کے سامنے سونے کے سکوں کے ڈھیر لگ گئے۔ سب بچوں نے جلدی جلدی اپنی جیبیں سکوں سے بھرلیں۔ پھر وہ خوشی خوشی بازار گئے۔ آج وہ ایسی سب چیزیں خرید لینا چاہتے تھے جن کو خریدنے کا صرف خواب ہی دیکھ سکتے تھے لیکن یہ سب سوچنا تو آسان تھا لیکن پانا بہت مشکل… کیوں کہ دکان داروں نے سونے کے سکے اشیا کے تبادلے میں لینے سے انکار کردیا تھا۔ ان کے خیال میں یہ کوئی غیر ملکی کرنسی تھی۔ کافی دیر تک کچھ بھی خریدنے میں ناکام رہنے کے بعد بچے تنگ آگئے۔
ایک اصطبل کے سامنے سے گزرتے ہوئے رابرٹ کو ایک بے حد خوب صورت گھوڑا نظر آیا تو وہ چلتے چلتے رُک گیا۔
’’میں یہ گھوڑا خریدوں گا۔‘‘ وہ یہ کہتے ہوئے اندر گھس گیا تو باقی بچے بھی اس کے پیچھے ہولیے۔
’’میں یہ گھوڑا خریدنا چاہتا ہوں۔ اس کی کیا قیمت ہوگی؟‘‘ اس نے بارعب آواز سے اصطبل کے مالک سے پوچھا۔
اصطبل کا مالک رعب میں آنے کے بجاے زور سے ہنس پڑا اور اپنے ملازم کو آواز دے کر بلایا: ’’دیکھو! دیکھو! یہ نواب صاحب میرے اصطبل کا بہترین گھوڑا خریدنے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس وقت ان کی جیب میں دس روپے بھی نہیں ہوں گے۔‘‘
رابرٹ یہ سن کر آگ بگولا ہوگیا: ’’میں کوئی نواب نہیں ہوں اورجہاں تک دس روپے کی بات ہے، یہ دیکھو!‘‘ اس نے اپنی جیب سے مٹھی بھر سونے کے سکے نکالے اور اصطبل کے مالک کی آنکھوں کے سامنے کردیے، لیکن مالک نے متاثر ہونے کے بجاے ملازم سے کہا: ’’فوراً اصطبل کا دروازہ بند کردو اور پولیس کو فون کرو۔‘‘
بچے پولیس کا سن کو سخت خوف زدہ ہوگئے۔ اصطبل کے مالک نے پوچھا: ’’تمھارے پاس اتنا سونا کہاں سے آیا؟‘‘
انھوں نے ریت کی پری کی کہانی سنائی مگر اس نے اس پر اعتبار کرنے سے انکار کردیا۔
جلد ہی پولیس آگئی اور بچوں کو اپنے ساتھ لے گئی۔ اصطبل کا مالک بھی ہمراہ تھا۔ پولیس اسٹیشن پہنچتے پہنچتے شام ہوگئی۔ سورج غروب ہونے کے وقت وہ اندر داخل ہورہے تھے۔ وہاں موجود انسپکٹر نے کہا: ’’تم سب اپنی اپنی جیبیں اُلٹ کر دکھائو۔‘‘
سب بچوں نے اپنی جیبیں الٹ دیں لیکن ظاہر ہے کہ سورج ڈوبتے ہی وہ سب سکے غائب ہوچکے تھے۔ انسپکٹر نے اصطبل کو من گھڑت کہانی سنانے پر سخت سُست کہا اور بچوں کو گھر جانے کا حکم دے دیا۔
٭…٭
اگلے دن سارہ صبح پانچ بجے اُٹھ گئی اور ساحل پر ریت کی پری سے ملنے چلی گئی۔
’’ہم اب تک احمقانہ خواہشیں کرکے مصیبت میں ہی پھنسے ہیں۔ میں تم سے مشورہ لینا چاہتی ہوں کہ ہمیں کیسی خواہش مانگنی چاہیے؟‘‘ سارہ نے وضاحت کی۔
’’مشورہ وہ واحد چیز ہے جو میں کبھی کسی کو نہیں دیتی۔‘‘ پری نے بھی جوابی وضاحت کی۔
سارہ گھر واپس آئی اور بہن بھائیوں نے آپس میں مشورہ کرکے طے کیا کہ انھیں اپنے لیے پَروں کی فرمائش کرنی چاہیے۔
وہ ساحل پر پہنچے اور جلد ہی ان کی یہ فرمائش پَروں کی صورت میں ان کے کندھوں پر موجود تھی۔ انھوں نے ریت کی پری کا شکریہ ادا کیا اور اُڑ گئے۔
کافی دیر تک اُڑتے رہنے کے بعد اُنھیں بھوک لگنے لگی تو انھیں وہیں نیچے آڑو کے درخت نظر آئے۔ سرخ سرخ آڑو دیکھ کر وہ ان درختوں پر اُتر آئے۔
’’اگر ہم یہ آڑو توڑ کر کھالیں تو کیا یہ چوری کہلائے گی؟‘‘ اینا نے پوچھا۔
’’ہم اب پرندے ہیں اور پرندے کسی بھی درخت سے پھل کھاسکتے ہیں۔ انھیں کوئی بھی چور نہیں کہتا۔‘‘ جین نے جواب دیا۔ لہٰذا انھوں نے آڑو کھانے شروع کردیے۔ ان کی باتوں کی آواز سن کا باغ کا مالک اس طرف آیا لیکن جب تک بچے کھانے سے فارغ ہو کر اُڑ رہے تھے۔
اینا نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ روپے نیچے گرا دیے کیوں کہ وہ مفت آڑو کھانے پر کچھ شرمندگی محسوس کررہی تھی۔
’’یہ لو آڑوئوں کی قیمت…!‘‘ وہ چلائی۔
باغ کے مالک نے آنکھیں مَل مَل کر دیکھا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اس نے پہلی دفعہ اُڑنے والے بچے دیکھے تھے۔ اُڑتے اُڑتے جب وہ بُری طرح تھک گئے تو ایک دس منزلہ عمارت کی چھت پر سُستانے کے لیے اُتر گئے، لیکن وہ اتنے تھکے ہوئے تھے کہ تھوڑی ہی دیر میں ان سب کو نیند آگئی۔ جب ان کی آنکھ کھلی تو سورج غروب ہوچکا تھا اور ان کے پَر بھی غائب ہوچکے تھے۔ وہ ایک دس منزلہ عمارت کی چھت پر بیٹھے ہوئے تھے۔ گھبراہٹ کے مارے انھوں نے چھت پر دوڑنا شروع کردیا لیکن ایک رسی کی سیڑھی کے علاوہ بظاہر کوئی اور راستہ انھیں نیچے اترنے کے لیے نظر نہیں آیا اور وہ اس سے اترنے کی ہمت نہیں کرسکتے تھے۔
’’ہمیں مدد کے لیے چِلّانا پڑے گا۔‘‘ رابرٹ نے کہا تو وہ چاروں حلق پھاڑ کر چِلّانے لگے۔
کافی دیر بعد نچلی منزل پر کچھ ہل چل محسوس ہوئی اور کسی نامعلوم جگہ سے دو آدمی چھت پر نمودار ہوئے۔
چاروں بچوںکو چھت پر دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئے اور پوچھا: ’’تم لوگ کون ہو؟ یہاں چھت پر کیا کررہے ہو؟‘‘
ان کے کسی سوال کا کوئی تسلی بخش جواب وہ نہ دے سکے۔ کافی دیر تک پوچھ گچھ کے بعد بالآخر انھوں نے بچوں کو نیچے پہنچا دیا۔ بچے رات کے قریب گرتے پڑتے گھر پہنچے اور دیر سے گھر لوٹنے پر ملازمہ سے خوب ڈانٹ کھائی۔
٭…٭
اگلے دن بچوں کو اطلاع ملی کہ امی اور ابو واپس آرہے ہیں۔ بچوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ ریت کی پری سے مزید خواہشات نہیں کرسکتے کیوں کہ اگر ہمیشہ کی طرح وہ اپنی خواہش کے نتیجے میں کسی پریشانی کا شکار ہوگئے تو اپنے والدین کو وضاحت دینا بہت مشکل کام ہوگا، لہٰذا وہ آخری بار ریت کی پری سے ملنے گئے۔ انھوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ وہ اب اس سے کوئی فرمائش نہیں کریں گے کیوں کہ انھیں فرمائش کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا۔
ریت کی پری نے خوش ہو کر کہا: ’’چلو اچھا ہے، اب میں دوبارہ آرام سے سو سکوں گی۔ اب جلدی سے آخری بار یہ خواہش کرو کہ تم لوگ میرے بارے میں سب کچھ بھول جائو گے اور کسی سے بھی میرا ذکر نہیں کرو گے۔‘‘
بچوں نے ایسا ہی کیا اور پھر ریت کی پری دوبارہ ریت میں ایک سرنگ سی بنا کر اس میں غائب ہوگئی۔

٭…٭

اس تحریر کے نئے الفاظ
فَر: رعب و جلال، رونق، نور
کرنسی: سکہ رائج الوقت، کسی ملک کا سکہ