بالی ’بھیں بھیں‘ کرکے بولی: ”دینو اب بدل گیا ہے، وہ مجھے اچھا چارا نہیں دیتا اور دودھ کم دینے پر بڑبڑاتا ہے۔“

شکار پور کے ایک گاﺅں میں ’دینو‘ گوالہ رہتا تھا۔ دینو کی گاے بہت پیاری تھی۔ اس کی سفید اور کالی گاے دیکھ کر سب کو پیار آتا تھا۔ دینو اُسے لاڈ سے ”بالی“ کہتا تھا۔
دینو کا گھر چھوٹا تھا مگر صحن بہت بڑا تھا، جس میں امرود کا ایک بڑا درخت بھی تھا۔ جہاں وہ بالی کو باندھ دیتا تھا۔ بالی درخت کے نیچے سارا سارا دن جگالی کرتی، دُم ہلاتی اِدھر اُدھر دیکھتی، کبھی اُٹھتی، کبھی بیٹھتی۔ کبھی دینو اور اس کی بیوی کو کام کرتے دیکھتی رہتی۔ بھوک لگتی تو ”بھیں بھیں“ کرنے لگتی تھی۔
دینو اپنی گاے بالی کا بڑا خیال رکھتا اور اُسے وقت پر تازہ چارا کھلاتا تھا۔ بالی کا دودھ سب کو پسند تھا۔ گاڑھے گاڑھے دودھ کو چھوٹے بڑے سب شوق سے پیتے تھے۔ گاﺅں کی عورتیں دودھ کی چاے بہت اچھی بناتی تھیں اور مرد بالی کے دودھ کے دو دو گلاس لسی پی جاتے تھے۔
بالی کے دودھ سے دہی، مکھن، چھاچھ سب ہی لذیذ بنتے تھے۔ بالی، دینو سے بہت خوش تھی۔ دینو اس سے پیار جو کرتا تھا۔ وہ اس کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھتا اور ہر سہ پہر کو گاﺅں کے مویشیوں کے ساتھ اپنی بالی کو بھی چراگاہ لے جاتا تھا۔
گاﺅں سے دُور ہری بھری یہ چراگاہ بالی کو بہت پسند تھی۔ یہاں ہر طرف پھول کِھلے ہوئے تھے اور چراگاہ کے دونوں طرف صاف پانی کی ندی بہہ رہی تھی۔ انار، آم اور آڑو کے بے شمار درخت تھے، پیپل کے سایہ دار گھنے درختوں سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں۔ پرندوں کے چہچہانے سے چراگاہ میں بڑی رونق تھی۔
دینو کی بالی سب جانوروں کے درمیان کھڑی ملکہ لگتی تھی۔ دینو نے اس کے گلے میں ایک چھوٹی سی گھنٹی بھی باندھ رکھی تھی جو ”ٹن، ٹن، ٹن“ بجتی رہتی تھی۔ بھیڑ، بکریاں اور دوسری گاے بیل سب ہی بالی کے دوست تھے۔ وہ سب سے مل جل کر رہتی تھی۔
دینو کا ایک پیارا سا گول مٹول بیٹا تھا، جو ابھی چھہ ماہ کا تھا۔ دینو کی بیوی ناصرہ اُسے چارپائی پر پیار سے تھپک تھپک کر سلاتی اور پھر گھر کے کاموں میں لگ جاتی تھی۔ بالی دُور کھڑی دینو کے بیٹے کی رکھوالی کرتی تھی، اچانک وہ نیند میں ڈر جاتا، بھوک لگنے سے بلک بلک کر رونے لگتا تو بالی ”بھیں بھیں“ کرکے ناصرہ کو آواز دیتی اور اپنا سر بار بار گھماتی، جس سے گھنٹی بجتی تو ’منو‘ خاموش ہوجاتا۔ اُسے گھنٹی کی آواز اچھی لگتی تھی اتنے میں منو کی ماں دوڑی چلی آتی۔ اُسے چومتی، بہلاتی، دودھ پلاتی پھر سے ہولے ہولے اُسے تھپکتی، جب وہ سو جاتا تو اس کے دائیں بائیں چھوٹے چھوٹے تکیے بھی لگا دیتی۔
صبح سویرے جب منو کی تیل سے مالش ہوتی تو وہ خوب قلقاریاں مار کر ہنستا۔ منو کو ایسے ہنستا دیکھ کر دُور کھڑی بالی بہت خوش ہوتی، منو کی ماں اُسے نہلاتی، صاف ستھرے کپڑے پہناتی تو وہ ننھا شہزادہ لگتا اور بالی اُسے پیار سے دیکھتی رہی۔
منو جیسے جیسے بڑا ہو رہا تھا، دینو گوالہ اپنی بالی سے غافل ہوتا جا رہا تھا۔ وہ اپنے منے سے گھنٹوں کھیلتا، کبھی بندر بنتا، کبھی گھوڑا، کبھی ہاتھی بن کر منو کو پیٹھ پر بٹھاتا اور صحن میں گھومتا پھرتا۔ حتیٰ کہ بالی کو تازہ چارا دینا بھی بھول جاتا تھا۔
بالی بھوکی رہنے لگی، وہ بہت پیر پٹختی، دُم اپنی کمر پر دائیں بائیں دھڑا دھڑ غصے سے مارتی، ”بھیں بھیں“ کرکے شور کرتی، مگر دینو کو اس کی ذرا بھی فکر نہ ہوتی۔ صبح سویرے جب بالی کا دودھ کم اور پتلا پتلا سا دیکھتا تو اُسے بالی پر بہت غصہ آتا، وہ بڑبڑاتا۔
”اتنا کم دودھ دیا ہے۔ اپنا پیٹ کاٹ کر اسے کھلاﺅ پلاﺅ، اس کا فائدہ کیا….؟“
وہ بالی کو اب چراگاہ بھی کم کم لے کر جاتا تھا۔
منّو اب تین برس کا ہوچکا تھا۔ دینو اسے صحن میں دوڑاتا پھرتا، باپ بیٹے دونوں ہنستے، دُور کھڑی بھوکی بالی اُداس نظروں سے دینو کو دیکھتی رہ جاتی۔

٭….٭

ایک دن دینو اپنے بیٹے، بالی اور گاﺅں کے دوسرے مویشیوں کو چراگاہ لے گیا، جہاں بالی نے اپنے دوستوں سے گلہ کیا۔
’بھیں بھیں‘ کرکے بولی: ”دینو اب بدل گیا ہے، وہ مجھے اچھا چارا نہیں دیتا، میں دودھ کم دیتی ہوں تو وہ بڑبڑاتا ہے، غصہ کرتا ہے، مجھے مارتا ہے۔“
بالی کی بات سن کر بکری فوراً بولی: ”مَیں مَیں…. آپا بالی! واقعی تم دُبلی اور بہت کمزور بھی لگ رہی ہو۔ آپا….! اگر تم بیمار پڑ گئی تو تمھارا کیا ہوگا؟“
”بھیں بھیں…. کیا کروں بہن میں بے بس ہوں، مجھے دینو نے غلام بنا رکھا ہے۔ میرے دودھ سے گاﺅں کے سارے بچے پلے ہیں، میرا دودھ بچوں میں جان ڈال دیتا ہے۔ دہی، لسی، مکھن اور پنیر میرے دودھ سے بنی یہ چیزیں بچے بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ خود اس کا بیٹا منو میرے دودھ سے بنی مزے مزے کی کھیر کھا کر بڑا ہوا ہے، میری اتنی خدمات پر بھی دینو اب میرا خیال نہیں رکھتا۔“ وہ یہ کہہ کر رونے لگی۔
بھیڑ نے اُسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا: ”بھیں بھیں۔ بالی بہن! تم صبر کرو دینو کا بیٹا منو بڑا ہو کر تمھارا خیال کرے گا۔“
ایک سال بعد منو کی دوستی بالی سے ہوچکی تھی۔ وہ بالی کی دُم سے کھیلتا رہتا تھا۔ منو اس کی پیٹھ پر بیٹھتا، اُسے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے تازہ تازہ چارا کھلاتا تھا۔
ایک دن دودھ پتلا اور کم ہونے پر جب دینو، بالی کو ڈانٹ رہا تھا تو منو نے کہا: ”بابا…. بالی پہ غصہ مت کیا کریں۔ آپ جب اسے تازہ چارا دیں گے تو ہی بالی گاڑھا گاڑھا دودھ دے گی۔“
منو کی بات سُن کر دینو سوچنے لگا: ”واقعی بالی جب تازہ چارا کھاتی تھی تو گاڑھا دودھ دیتی تھی۔“
دینو نے پھر سے منو کے ساتھ بالی کا خیال رکھنا شروع کیا، اب بالی پہلے کی طرح دودھ دیتی ہے۔ دینو نے دودھ کی دُکان کھولی ہے۔ جہاں بالی کے دودھ کا مکھن، لسی اور پنیر لوگ شوق سے خریدتے ہیں۔

٭….٭