تمھارے روزے قبول ہوں اور تمھیں مزے دار افطاریاں ملیں‘‘ دادی جان نے دُعا دی’’
بچو! پیارے بچو…! سب کہاں ہو…؟ جلدی سے میرے پاس آجاؤ۔‘‘ دادی جان نے آواز لگائی۔’’
دادی جان کی آواز پر ہم سب بھاگتے ہوئے ان کے پاس پہنچ گئے۔
’’سب نشست پر بیٹھ جاؤ۔ میں تم سب کو ایک مزے کی کہانی سناتی ہوں۔‘‘ دادی جان نے کہا۔
کہانی کے نام پر سب کی باچھیں کِھل اُٹھیں، کوئی دادی جان کے تخت پر ان کے پاس ہی ٹک گیا، اور باقی بچے سامنے بچھے قالین پر ادب سے بیٹھ گئے۔
دادی جان نے کہنا شروع کیا: ’’پیارے بچو! جب میں تمھاری طرح بچی تھی، تو مجھے بھی کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا۔ ہم سب بھی اپنی دادی جان کے ارد گرد بیٹھ جاتے اور وہ ہمیں مزیدار کہانیاں سناتیں، بلکہ میں آج آپ سب کو وہی کہانی سناؤں گی، جو میں نے اپنے بچپن میں اپنی دادی جان سے سنی تھی۔ یہ کہانی ’رمضان المبارک‘ کے بارے میں تھی۔‘‘ دادی جان نے کہا تھا: ’’ایک برس بیت چکا ہے اور اب پھر رمضان آ رہا ہے تو ہم اسے کیا تحفہ دیں گے؟ اگر ہم نے اسے کوئی تحفہ نہ دیا تو وہ ہم سے ناراض ہو کر جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ اگلے برس جب وہ آئے تو ہم میں اسے تحفہ دینے کی طاقت ہی نہ رکھتے ہو۔‘‘
’’دادی جان! ہم اسے کیا تحفہ دے سکتے ہیں؟‘‘ میں نے ان کی جانب دیکھ کر پوچھا۔
وہ بولیں: ’’روزے کا… ہمیں رمضان کو ’روزے‘ کا تحفہ دینا چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں روزہ رکھنا ہوگا۔ پھر رمضان جب ایک مہینے بعد واپس جائے گا تو وہ ہم سے خوش ہوگا اور پیارے بچو! یہ بھی نہ بھولو کہ رشتہ داروں کے ہاں جانا بھی ایسا عمل ہے جو روزے کو اچھا بنا دیتا ہے۔ ہمیں امیر رشتہ داروں سے بھی ملنا چاہیے اور غریب رشتہ داروں سے بھی…‘‘
پھر دادی جان نے ہمیں روزے کی حکمت بتائی:
’’جب ہم روزہ رکھیں گے تو ہمیں ان لوگوں کا احساس ہو گا، جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، اس طرح جن جیبوں کو اللہ تعالی نے مال سے بھرا ہے، وہ ان جیبوں میں ڈال دیں گے جن کی جیبیں خالی ہیں اور اس عمل سے اللہ تعالیٰ انھیں بہت بڑے اجر سے نوازے گا۔‘‘
اس کے بعد انھوں نے ہمیں بہت ساری دعائیں دیں جو آج بھی ہم سب کی پسندیدہ ہے: ’’رمضان مبارک ہو… ہر سال تمھیں رمضان المبارک کی خوشیاں نصیب ہوں۔ تمھارے روزے قبول ہوں اور تمھیں مزے دار افطاریاں ملیں۔ میری دُعا ہے کہ تم سب اسی طرح ہنستے مسکراتے رہو اور محبت اور خوشی کے گیت گنگناتے رہو۔ رمضان بار بار ہمارے پاس آئے اور ہر سال تحفہ لے کر جائے۔‘‘
’’یہ اسی وقت ہوگا، جب ہم پہلے سے زیادہ اچھے روزے رکھیں گے اور ہمارے اخلاق بھی زیادہ اچھے ہو جائیں گے… پھر تیار ہیں سب رمضان کے استقبال کے لیے؟ اور اس مہینے کو روزے اور اچھے اعمال کا تحفہ پیش کرنے کے لیے؟‘‘ دادی جان نے کہا تو سب بچوں نے خوشی سے ہاتھ کھڑے کر دیے۔
سب بچوں کو ہاتھ اٹھائے دیکھ کر دادی جان اپنے بچپن میں کھو گئی تھیں کیوں کہ انھوں نے بھی تو اسی طرح ہاتھ اُٹھا کر رمضان کو بہترین روزوں کا تحفہ دینے کا وعدہ کیا تھا ناں!
عربی ادب سے ماخوذ
٭…٭