( ملاقات)
عاقب جاوید
عبدالرحیم متقی
اویس منیر

تعارف
ڈاکٹر اقبال آفریدی ۴۲ دسمبر ۱۶۹۱ءمیں سدہ، کرم ایجنسی میں پیدا ہوئے۔ ضلع بدین سے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کیا پھر خیبر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں ایم سی پی ایس، ایف سی پی ایس اور ایف آر سی پی کی سند حاصل کیں۔ آپ پاکستان جنرل آف سائیکیٹرک سوسائٹی کے چیف ایڈیٹر بھی ہیں اور پاکستان میں واحد ماہر نفسیات ہیں۔ جنھیں جناح ہسپتال کی تاریخ میں ۲۲ گریڈ ملا ہے۔ گزشتہ ۴۳ برس سے شعبہ نفسیات سے وابستہ ہیں۔ حال میں آپ پاک انٹرنیشنل
ہسپتال میں بطور ماہر نفسیات اور مینیجنگ ڈائریکٹر کی ذمہ داری نبھارہے ہیں۔

ساتھی: اپنے تعلیمی سلسلے کا احوال بتائیں؟
اقبال آفریدی: میں نے ابتدائی تعلیم بہت خستہ حال اسکول میں حاصل کی ہے۔ وہاں پر صرف ایک استاد تھے، جو اسکول کے تمام بچوں کو اکیلے پڑھایا کرتے تھے اور وہ اسکو ل بھی سندھی میڈیم تھا۔ مجھے سندھی زبان نہیں آتی تھی تو (ہنستے ہوئے)، میرے استاد نے صرف مجھے ہی اُردو میں پڑھایا۔ میں اب بھی ان کی بہت عزت اور قدر کرتا ہوں۔

ساتھی: نفسیات کے شعبے کا انتخاب کس طرح کیا؟
اقبال آفریدی: مجھے شروع سے ہی فزکس اور ریاضی میں کافی دلچسپی تھی۔ لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ والد صاحب کی خواہش کچھ اور ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ڈاکٹر بنوں، لوگوں کی خدمت کروں۔ وہ اکثر بڑے مان سے کہا کرتے تھے کہ ”ڈاکٹری بہترین شعبہ ہے۔ اس سے منسلک ہر اچھا ڈاکٹر فی سبیل اللہ علاج کرکے لوگوں کی دعائیں لیتا ہے، جس سے اس کی آخرت بھی سنور جاتی ہے۔“ پھر میں نے سوچا کہ والد صاحب کی خواہش کو پورا کرنا چاہیے۔ چوں کہ میرا رجحان سائنس کی جانب تھا اور میرا پسندیدہ کام سرجری وغیرہ کرنا تھا، لیکن میں نے محسوس کیا کہ اس وقت ملک کو ایک ماہر ِسَرجن سے زیادہ ایک ماہر ِ نفسیات کی ضرورت ہے۔ سو میں نے اس شعبے کو اختیار کرلیا۔

ساتھی: یہ پیشہ اختیار کرتے وقت کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
اقبال آفریدی: شروع میں تو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ سوسائٹی کا کافی دباوتھا-اس شعبے سے متعلق لوگوں کی متضاد راے تھی۔ پہلی مرتبہ ریڈیو پر ایک پروگرام میں گیا تو وہاں میزبان نے پوچھا کہ شعبہ نفسیات والوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ علاج کرتے کرتے خود نفسیاتی یا پاگل ہوجاتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کتنے عرصے میں نفسیاتی ہوجاتے ہیں؟ کہنے لگے کہ یہی کوئی پانچ دس سال لگتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ اگر میں نے ان پانچ دس سالوں میں ہزار مریضوں کا علاج کردیا اور پھر خود اس مرض کا شکار ہوگیا تو میرا نہیں خیال کہ یہ گھاٹے کا سودا ہوگا۔

ساتھی: شعبہ نفسیات کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟ اور اب تک اس میں کتنی تبدیلی آچکی ہے؟
اقبال آفریدی (مسکراتے ہوئے): بہت اچھا سوال ہے۔ شروع میں نفسیات، فلسفہ کی ایک شاخ تھی۔ اس فن کے ماہر لوگ آرٹسٹ یا فلسفی کہلاتے تھے۔ پھر اسے باقاعدہ شعبہ کا درجہ دے کر اس کی تدریس شروع کردی گئی۔ اس شعبے کی تدوین و ترویج کے لیے بے انتہا کام ہوا۔ نفسیات کو بطور بیماری سنجیدگی سے لیا جانے لگا۔ بعد اذان اس کو مزید دو حصوں (سائیکیٹری اور سائیکولوجی) میں تقسیم کردیا گیا۔ مزید تحقیق کی بعد سائیکیٹری کو بطور شعبہ سائنس کا حصہ جب کہ سائیکولوجی کو آرٹس کا حصہ بنایا گیا۔ یہ فرق یاد رہے کہ سائیکیٹرسٹ میڈیکل ڈاکٹر ہوتا ہے جو مرض کی تشخیص کے ساتھ ساتھ دوائیاں بھی تجویز کرسکتا ہے۔ جب کہ سائکولوجسٹ کو صرف مرض کی تشخیص ہی کی اجازت ہے۔

ساتھی: گھبراہٹ کا نفسیات سے کیا تعلق ہے؟ اور اس کے مثبت اور منفی اثرات کیا ہیں؟
اقبال آفریدی: گھبراہٹ ایک فطری احساس ہے۔ اس سے ملتے جلتے کئی اور الفاظ ہیں جیسے بے چینی، پریشانی وغیرہ۔ اس کا شکار ہر فرد ہوتا ہے مثلاً کوئی انٹرویو دینے جارہا ہو تو اسے گھبراہٹ ہوتی ہے یا اس جیسے دیگر مسائل ہمارے ساتھ بھی پیش آتے ہیں۔ تھوڑی بہت گھبراہٹ کوئی بیماری نہیں بلکہ اچھی چیز ہے۔ یہ ہماری کارکردگی پر اچھا اثر ڈالتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر مجھے گھبراہٹ نہیں ہوگی تو میں تیاری نہیں کروں گا۔ دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہوگا جس کو گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ لیکن جب یہ مستقل طاری ہونے لگے تو بیماری کے زمرے میں آتی ہے۔ بچے بہت زیادہ گھبراتے ہیں، اندھیرے اور کسی نئی جگہ جانے سے ڈرتے ہیں۔ اس کے علاوہ والدین خود بھی بچوں میں یہ ڈر پیدا کرتے ہیں کہ چپ ہوجاوورنہ چڑیل آجائے گی…. جس سے بچے کے ذہن میں خوف بیٹھ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کی ہمت نہیں بڑھائی جاتی بلکہ اُلٹا انھیں ڈرایا جاتا ہے، جس سے وہ زیادہ گھبراہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ تھوڑی بہت گھبراہٹ ہونا فطری ہے اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں…. یہ بیماری کی صورت اس وقت اختیار کرتی ہے جب یہ غیرمنطقی ہو اور اس کا دورانیہ طویل ہوجائے۔ گھبراہٹ کو یوں بھی آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ جب یہ ہماری کارکردگی کو بہتر بنائے تو مفید اور اگر خراب کرے تو مضر ہے۔ نہ گھبرانا بھی غلط ہے اور زیادہ گھبرانا بھی غلط ہے، اعتدال ہونا چاہیے۔

ساتھی: گھبراہٹ کی علامات کیا ہیں؟
اقبال آفریدی: گھبراہٹ کا اثر اوپر بالوں سے لے کر نیچے پاو تک ہوتا ہے۔ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آنکھوں کی پتلیاں پھیل جاتی ہیں۔ منھ سوکھ جاتا ہے۔ دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، ہاتھوں میں کپکپاہٹ شروع ہوجاتی ہے۔ سانس لینے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔ گھبراہٹ انسان کا پورا نظام درہم برہم کردیتی ہے۔ یہ سب جسمانی علامات ہیں اور نفسیاتی علامات میں خوف، بے چینی، بے قراری، کام میں عدم توجہ اور عجیب و غریب خیالات کہ یہ نہ ہوجائے وہ نہ ہوجائے، تشویش کرنا وغیرہ…. ماہرین کا کہنا ہے کہ جب یہ گھبراہٹ مستقل ۴ ہفتے تک ہو تو یہ بیماری کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔ جب کہ کچھ ماہرین کے نزدیک اس کا دورانیہ دو ماہ تک ہوسکتا ہے۔

ساتھی: بچوں کو گھبراہٹ سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟
اقبال آفریدی: بچوں میں تھوڑی بہت گھبراہٹ، خوف، پریشانی تو ہوتی ہی ہے۔ خاص طور سے لڑکیوں میں، جیسے ہی انھیں چھپکلی نظر آئی چیخنا چلانا شروع (اجتماعی قہقہہ) چھپکلی اِدھر تو یہ اُدھر…. اسی طرح لال بیگ اِدھر تو یہ اُدھر…. آج تک کسی لال بیگ نے کسی کو نہیں کاٹا اور نہ ہی چھپکلی کی وجہ سے کوئی مرا ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ والدین کو بچوں کی بات سننی چاہیے۔ انھیں اس طرح کے جملے کہ ”چپ ہوجاو ¿…. بڑوں کے سامنے بات کررہے ہو شرم نہیں آتی وغیرہ….“ یہ شرم اس بچے کے اندر داخل کردی جاتی ہے۔ جب وہ بڑوں کے سامنے بات نہیں کرے گا تو کھوج کیسے لگائے گا؟ اس کے معصومانہ سوالات کہ ہم پرندوں کی طرح کیوں نہیں اُڑ پاتے…. تو بڑوں کو چاہیے کہ وہ بچے کو اچھی طرح جواب دیں نہ کہ اسے دھتکاریں، اگر اسے دھتکارا یا چپ کروایا جائے گا تو اس کے ذہنی ارتقا کا عمل رُک جائے گا اور جب بچہ کھوج نہیں لگائے گا تو سائنٹسٹ کیسے بنے گا….؟ اگر اسے اس کے سوالات کے جوابات نہیں ملیں گے اور اس کا مذاق اُڑایا جائے گا تو اس کے اندر جھجک پیدا ہوگی اور وہ اپنے اندر ہی مفقود ہوکر رہ جائے گا۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے سوالات کے جوابات دیں۔ اس کے علاوہ اسکولوں میں اساتذہ کو چاہیے کہ وہ ڈنڈے کے زور پر پڑھانے کے بجاے انھیں ہنسی خوشی اور کھیل کھیل میں تعلیم دیں۔ مار دھاڑ سے سوچنے کا نظام بند ہوجاتا ہے اور کھوج لگانے کے بجاے رٹّا لگانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ ہمارے اسکولوں کا تعلیمی نظام بچوں سے صرف رٹّا لگواتا ہے۔ بچوں سے ایسے سوالات ہونے چاہئیں، جن سے بچوں میں فہم پیدا ہو اور ان کی سوچنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو۔ ان سب کے علاوہ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو وقت پر سلائیں، انھیں ورزش کروائیں اور خاص طور پر موبائل سے دُور رکھیں۔

ساتھی: کووِڈ ۹۱ نے بچوں کی نفسیات پر کیا اثر ڈالا ہے؟
اقبال آفریدی: بچوں کی نفسیات پر اس وبا کا بہت گہرا اثر ہوا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا میڈیا ہے، جو صرف منفی خبروں کو پھیلاتا ہے۔ اس دوران ٹی وی دیکھنے اور موبائل استعمال کرنے کے سوا کوئی جسمانی سرگرمی نہیں تھی۔ اگر بچہ جسمانی سرگرمیاں نہیں کرے گا تو اس کا ذہن نشو و نما کیسے کرے گا؟ جس سے بے چینی میں اضافہ ہوگا۔ اسکولوں اور کالجز کی تعطیلات کی وجہ سے بچوں کی سونے، جاگنے کی کوئی ترتیب نہیں رہی، جس سے بچوں کی نفسیات پر گہرا اثر ہوا ہے۔

ساتھی: ”دوران طالب علمی آپ کی کون کون سی غیر نصابی سرگرمیاں تھیں؟
اقبال آفریدی: زمانہ طالب علمی میں، میں بیڈمنٹن کا چیمپئن رہا ہوں اور تیراکی بھی جانتا ہوں۔ کرکٹ کی سہولت نہیں تھی، اس لیے کرکٹ نہیں کھیل سکا۔ اس کے علاوہ موسیقی کا بھی شوق رہا ہے۔

ساتھی: ”جب آپ اسکول میں تھے تو آپ کو کس مضمون سے دلچسپی رہی”؟
اقبال آفریدی: فزکس اور ریاضی اسکول میں جب کہ میڈیکل کالج میں فزیالوجی میرا پسندیدہ مضمون تھا۔

ساتھی: ”کوئی ایسا مضمون جس سے بیر رہا ہو؟
اقبال آفریدی (مسکراتے ہوئے): اسکول میں اچھا طالب علم تھا، اسی لیے کسی بھی مضمون سے بیر نہیں تھا۔

ساتھی: کیا بچپن میں کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا؟
اقبال آفریدی(فخر سے): بچپن میں بچوں کے رسالے بہت شوق سے پڑھتا تھا۔

ساتھی: کوئی تخلیقی و تحقیقی کام کیا ہو؟
اقبال آفریدی: بچپن میں کچھ کہانیاں لکھی تھیں، اس کے علاوہ نفسیات سے متعلق دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور سو سے زائد ریسرچ پیپر لکھ چکا ہوں۔

ساتھی: بچپن میں آپ کا پسندیدہ کھیل کون سا رہا ہے؟
اقبال آفریدی: کھیلوں میں بچپن میں فٹبال اور کبڈی بہت پسند تھے۔

ساتھی: بچپن کے ایسے مشاغل جو آپ کے پسندیدہ رہے ہوں؟
اقبال آفریدی( فخریہ انداز میں): غلیل کا بہت شوق تھا۔ میں سب بچوں میں غلیل کا ماہر تھا۔

ساتھی: ”بچپن کی کوئی شرارت جسے آج بھی یاد کرکے ہنسی آتی ہو؟ یا جس سے والد صاحب سے پٹائی لگی ہو؟
اقبال آفریدی (سنجیدگی سے): بچپن میں، میں بہت شریف تھا۔ شرارتیں تو بڑے ہوکر شروع کیں۔

ساتھی: اُردو کے کن شعرا کو پسند کرتے ہیں؟
اقبال آفریدی: اُردو شاعری میں علامہ اقبال کا کوئی ثانی نہیں پھر غالب اور ناصر کاظمی پسندیدہ ہیں۔

ساتھی: پختونوں کے بارے میں مشہور ہے کہ گرم مزاج ہوتے ہیں، کیا آپ کی پیشہ ورانہ زندگی میں اس کے اثرات موجود ہیں؟
اقبال آفریدی (ہمم کی آواز نکالتے ہوئے): میں نے خود کو بہت قابو میں رکھا ہے بلکہ اس شعبہ نے مجھے قابو میں رکھا ہے۔

ساتھی: آپ ماہر نفسیات ہیں اور لوگوں کے مسائل حل کرتے ہیں، جب آپ کو خود ان مسائل کا سامنا ہوتا ہے تو کیا کرتے ہیں؟
اقبال آفریدی: ماہر نفسیات ہونے کے ذاتی فوائد بھی ہیں کیوں کہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میرے جذبات کیا ہیں۔موجودہ کیفیت کیا ہے۔ اس کو قابو کیسے کرنا ہے مجھے اس شعبے میں خود کو اور اپنے جذبات کو قابو کرنے میں بہت مدد ملی ہے۔

ساتھی: کیا بیرون ملک خدمات انجام دینے پر آپ کو کوئی ایوارڈ ملا ہے؟
اقبال آفریدی: مجھے بیرون ممالک میں بیلر کالج آف میڈیسن جو ٹیکسس میں ہے، وہاں سے ایوارڈ ملا، پہلا پاکستانی ہوں جسے ایڈجنک پروفیسر کا عہدہ ملا ہے۔ دماغ کے موضوع پر ٹونی بیوزان ایوارڈ دیا گیا، جس پر اللہ کا شکر گزار ہوں۔

ساتھی: پاکستان میں اب تک کتنے ایوارڈ اپنے نام کرچکے ہیں؟
اقبال آفریدی: پاکستان میں مجھے بہت سے ایوارڈز ملے ہیں۔ جن میں قابل ذکر یہ ہیں۔ مجھے بہترین استاد ہونے کا ایوارڈ ملا۔ سینٹ جون والوں نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا۔ پاکستان سائیکیٹرک سوسائٹی نے لائف اچیومنٹ ایوارڈ دیا۔ ابن سینا اور شاہ سلیمان سے پیس ایوارڈ ملاان کے علاوہ متعدد ایوارڈ مل چکے ہیں۔

ساتھی: رسالہ ساتھی کے قارئین کے لیے کوئی پیغام؟
اقبال آفریدی: تعلیم کو بوجھ نہ سمجھیں بلکہ رحمت سمجھیں، کام کو عبادت سمجھ کر کریں، پڑھائی کو انجواے کریں اور خوش رہنا سیکھیں۔ محنت کریں اور صرف طالب ڈگری نہیں بلکہ طالب علم بنیں۔ آخرت کے متعلق بھی سوچیں اور اپنی ترجیحات کا تعین کریں۔ سب سے پہلے ایمان، صحت پھر عزت اور اس کے بعد یہ ڈگریاں، عہدے وغیرہ…. اور یہ آئی فون (میرا فون) والی سوچ بدل کر وی فون (یعنی ہمارا فون) والی سوچ اپنائےں۔ اپنی صلاحیتوں میں بھرپور اضافہ کریں اور انھیں عوام کی بہتری کے لیے استعمال کریں۔ اپنے خاندان، اپنی تنظیم، اپنی قوم کے ساتھ تعاون کریں۔

٭….٭