تعارف: شاہد خان آفریدی کا شمار پاکستان کے بہترین آل راونڈرز میں ہوتا ہے۔ آپ ۱ مارچ کو خیبرپختون خوا کے ضلع خیبر ایجنسی میں پیدا ہوا۔ 1996ءمیں کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد آپ بوم بوم کے نام سے مشہور ہوئے، آپ کو یہ نام پڑوسی ملک بھارت کے لیجنڈ کرکٹر اور کمنٹیٹر راوی شاستری نے دیا تھا۔
شاہد خان آفریدی اپنی بلے بازی کی بدولت پوری دنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔ آپ نے کرئیر میں کئی ریکارڈ بنائیں، جس میں سب سے زیادہ چھکوں اور سب سے زیادہ اسٹرائیک ریٹ کے ریکارڈ نمایاں ہیں۔ شاہد خان آفریدی نے اپنا آخری ٹی ٹوائنٹی میچ ۱۳ مئی 2018ءکو ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلا اور آج کل فلاحی کاموں میں مصروف ہیں۔
نوٹ
جب بھی کھیلوں کا کا ذکر آتا ہے تو کرکٹ اور کرکٹ کے ساتھ شاہد آفریدی کا ذکر لازم و ملزوم ہے۔ کیوں کہ وہ بچوں، بڑوں اور بوڑھوں میں بہت مقبول ہیں۔ پاکستانی قومی کرکٹ کے کپتان شاہد خان آفریدی کا یہ انٹرویو ستمبر2007ءمیں ساتھی میں شائع ہوا تھا۔ جسے ”کھیل نمبر“ میں کچھ سوالوں کے اضافے کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے۔

ساتھی: جب آپ بیٹنگ کے لیے میدان میں اُترتے ہیں تو بوم بوم آفریدی کے فلک شگاف نعروں، بینرز اور پوسٹرز سے آپ کا استقبال ہوتا ہے۔ کیا احساسات و جذبات ہوتے ہیں؟
شاہد آفریدی: بات یہ ہے کہ لوگوں کی مجھ سے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ میدان میں اُترنے سے پہلے سوچتا ہوں کہ پہلے پندرہ بیس منٹ اطمینان سے کھیلوں گا اور پھر چھکے چوکے ماروں گا۔ لیکن تماشائیوں کے شور شرابے میں، سب کچھ ذہن سے نکل جاتا ہے۔ دباﺅ بہت ہوتا ہے لیکن کبھی کامیاب ہوتے ہیں اور کبھی نہیں۔….
ساتھی: کہتے ہیں کہ پختون کافی گرم مزاج ہوتے ہیں۔ باﺅنسر یا یارکر پر غصہ بھی آتا ہوگا؟
شاہد آفریدی: باﺅنسر یا یارکر وغیرہ سے میں ڈرتا تو نہیں ہوں لیکن اگر کوئی بولر آگے آ کر کچھ بولے، آنکھیں دکھائے تو غصہ ضرور آتا ہے۔ لیکن باﺅنسر وغیرہ میرے لیے مسئلہ نہیں۔
ساتھی: بچپن میں کرکٹ کی وجہ سے کبھی مار پڑی ہے؟
شاہد آفریدی: بچپن میں کرکٹ کی وجہ سے مار بہت پڑی ہے۔ اس طرح کہ اگر صبح کھیلنے جاتا اور شام میں واپس آجاتا تو کوئی بات نہیں لیکن شام میں آکر محلے میں کھیلنا اور پھر رات میں نائٹ ٹیپ بال کرکٹ کھیلنا جو کراچی کا حسن اور شان ہوتی تھی۔ ایسی صورتحال میں مار تو پڑنی ہی تھی۔ گھر والے کہتے تھے کہ اتنی کرکٹ بھی ٹھیک نہیں لیکن کرکٹ سے اس حد تک عشق اور لگاﺅ تھا کہ ہر وقت کرکٹ ہی کرکٹ۔
ساتھی: تعلیم میں کیا صورت حال تھی؟
شاہد آفریدی: یار! چھٹی ساتویں تک تو ہم اچھے طالب علم ہوا کرتے تھے۔ پھر کرکٹ میں اتنے آگے نکل گئے کہ بس پاس ہونے کی حد تک پڑھائی کرتے تھے۔
ساتھی: جب کامیابیوں کا آغاز ہوا تو گھر والوں کا کیا رویہ تھا؟
شاہد آفریدی: ہاں! انڈر17، 19 میں بڑی زبردست کارکردگی رہی۔ اخبارات میں خبروں اور تصاویر سے والد صاحب کو کافی خوشی ہوتی تھی۔ انھوں نے بھی سوچا کہ بچہ پڑھائی سے تو نکل گیا ہے لیکن کرکٹ میں ضرور نام روشن کرے گا۔ دوسرا یہ کہ ہمارے محلے میں ہارون رشید برادران رہتے تھے، انھوں نے والد صاحب کو بتایا کہ اس میں کرکٹ کا بہت ہنر ہے۔ اسے کھیلنے دیں۔ پھر بڑے بھائی نے کافی سپورٹ کیا۔
ساتھی: کراچی میں میدانوں کی شدید قلت ہے۔ گلی محلوں میں کھیلتے ہوئے آپ نے بھی کسی گھر کا شیشہ توڑا ہوگا۔
شاہد آفریدی: (بڑے فخر سے) ہاں! بالکل…. بہت بار! نو دس برس کی عمر میں ٹیپ بال سے کھیلتے ہوئے ایک گھر کا شیشہ توڑا تو انھوں نے ابو سے شکایت کردی۔ ابو نے مجھے بلا کر بڑی زور سے کان مروڑا اور خوب ڈانٹ پلائی۔
ساتھی: آپ لوگوں سے محلے والے تو بہت تنگ ہوتے ہوں گے۔
شاہد آفریدی: محلے والے تنگ ضرور تھے لیکن ہمارے ساتھ محلے کے تقریباً ہر گھر سے ایک ایک لڑکا ضرور کھیلتا تھا۔ بچت ہو ہی جاتی تھی۔ ویسے ایک آدھ کریلے کی قسم کا گھر تو ہر محلے میں ہوتا ہے۔
ساتھی: بچپن میں کہانیاں پڑھنے کا شوق رہا ہے؟ یا دادی نانی سے سنی ہوں؟
شاہد آفریدی: کہانیوں کا مجھے کوئی خاص شوق نہیں رہا اور نہ ہی کسی نے سنائی ہیں۔ ویسے بھی ہمارے پٹھانوں میں کہانیوں کا کوئی رواج نہیں ہے۔ ہاں! کبھی کبھار کھیلوں کے متعلق رسائل پڑھا کرتا تھا اور کبھی کسی اخبار سے کہانیاں اور لطیفے وغیرہ بھی پڑھ لیا کرتا تھا۔
ساتھی: نوجوانوں کے اندر ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ جو شخص قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنتا ہے وہ راتوں رات امیر ہوجاتا ہے؟
شاہد آفریدی: (حیران کُن نظروں سے دیکھتے ہوئے) امیر ہوجاتا ہے راتوں رات! جب اللہ تعالیٰ نے مجھے عزت دی، میں نے تو امیر ہونے کا نہیں سوچا تھا۔ اپنے ملک کے لیے کھیلنا ہی بڑی بات ہے۔ پیسہ بھی زندگی کی ضرورت ہے لیکن ہم پر پیسہ نہیں نماز فرض ہے۔ نماز کو اپنی زندگی میں لے کر آئیں۔ اگر فرض ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ دنیا تو ویسے ہی بنا دیں گے۔ (کیا بات ہے آفریدی کی!)
ساتھی: بچپن میں شرارتیں بھی کی ہوں گی؟
شاہد آفریدی: وہ بچہ ہی نہیں جو شرارتیں نہ کرے۔ میں بھی دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر محلے والوں کو تنگ کیا کرتا تھا۔ بس یہی شرارتیں تھیں۔
ساتھی: آپ نے کبھی خود کھانا بنایا ہے؟
شاہد آفریدی: شادی سے پہلے کاﺅنٹی کرکٹ کھیلتے ہوئے، جب گھر کا کھانا کھانے کو دل چاہتا تو بھنڈی گوشت بنا لیتا تھا۔ گھر فون کرکے ترکیب پوچھتا اور پھر کھانے کے لائق کوئی سالن بن ہی جاتا تھا۔
ساتھی: بیرون ملک دوروں پر کبھی حلال کھانا نہ ملنے کی وجہ سے بھوکا سونا پڑا ہے؟
شاہد آفریدی: نہیں ایسا بھی نہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ جو کھانا کھانے کے بعد اللہ رب العالمین کا شکر ادا کرتا ہے۔ اللہ اس کے لیے حلال کھانوں کا انتظام بھی کرتا ہے۔ الحمدللہ! حلال کھانے تو دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں۔
ساتھی: آپ کا شمار بھی ان کرکٹرز میں ہوتا ہے جو کلین شیو کرکٹ میں آئے اور پھر باریش ہوگئے۔
شاہد آفریدی: یار! یہ کوئی داڑھی نہیں ہے۔ میری تو اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سنت کے مطابق داڑھی رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اصل میں خوف خدا بہت ضروری ہے۔ جب خوفِ خدا ہوگا تو زندگی خود بخود قرآن و سنت کے مطابق ہوجائے گی۔ ویسے بھی لازمی نہیں کہ داڑھی والا ہی اللہ والا ہو۔
ساتھی: ماشا اللہ آپ کے دور میں کھلاڑیوں نے باجماعت نماز کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ کبھی کوئی رکاوٹ کا سامنا ہوا ہو؟
شاہد آفریدی: (بڑے مایوسی کے انداز میں) وہ ختم ہوگیا تھا! (ہیں….؟) جب تک انضی (انضمام الحق) بھائی ہوتے تھے۔ سب مل کر نماز پڑتھے تھے بہت مزا آتا تھا…. بڑا سُرور ملتا تھا لیکن بعد میں لڑکے اپنے کمروں میں انفرادی نماز ادا کرنے لگے ہیں۔ جہاں تک رکاوٹ کا سوال ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا۔
ساتھی: پھول کون سا اچھا لگتا ہے؟
شاہد آفریدی: جس میں سے خوشبو آئے وہ پھول اچھا لگتا ہے۔
ساتھی: کوئی ایسا ریکارڈ جس کی خواہش ہو؟
شاہد آفریدی: ریکارڈ وغیرہ تو سب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں۔ انسان کوشش ضرور کرسکتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ ۶ بالوں پر ۶ چھکے ماروں۔
ساتھی: کیا شاعری سے دلچسپی ہے اور کون سا شعر پسند ہے؟
شاہد آفریدی: تھوڑا بہت شوق ہے، آسان شاعری پڑھ لیتا ہوں۔ کسی نے میرے لیے ایک شعر سنای
تذکرہ جب وفا کا ہوتا ہے
تو میں تیری مثال دیتا ہوں
ساتھی: کوئی ایسا ریکارڈ جو خواب میں بنایا ہو؟
شاہد آفریدی: 37بولوں والا ریکارڈ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں مرلی دھرن اور جے سوریا وغیرہ کو بڑے بڑے چھکے مار رہا ہوں۔ جب کہ میں اس میچ میں اسپنر کی حیثیت سے کھیل رہا تھا۔ یہ خواب میں نے اپنے رُوم میٹ شاداب کبیر کو سنایا تھا۔
ساتھی:اگر آپ کو آئی سی سی کا سربراہ بنا دیا جائے تو کیا نئے قوانین کرکٹ اور کھلاڑیوں کے لیے بنائیں گے؟
شاہد آفریدی: (آئی سی سی کے سربراہ کی خیالی سیٹ پر بیٹھ کر سوچتے ہوئے) ٹیسٹ کرکٹ کم کرکے ٹوئنٹی20اور وَن ڈے کرکٹ زیادہ کروں گا۔
ساتھی: ریٹائرمنٹ کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا دل چاہتا ہے؟
شاہد آفریدی: نہیں۔ بالکل نہیں۔ جتنی کرکٹ کھیلنی تھی۔ بہت زبردست طریقے سے کھیل لی اور میرے خیال میں ہر چیز کا اپنا ایک وقت ہوتا ہے۔
ساتھی: ساتھی کے ’کھیل نمبر‘ شائع ہونے پر ساتھی کے قارئین کے لیے کوئی پیغام۔
شاہد آفریدی: ۳۴ برس تک کامیابی سے نکلنا ہی اس کے بہترین ہونے کی ضمانت ہے۔ بہت زبردست رسالہ ہے۔ اسے مستقل جاری رہنا چاہیے۔ بچوں کے لیے مزید اچھی اچھی کہانیاں اور نظمیں آنی چاہئیں۔

٭….٭