قریب پہنچنے پر اسے اندازہ ہوا کہ یہ وہ نہیں ہیں جن کی اسے تلاش ہے۔ پڑھیے ایک تلاش کرنے والے کی کہانی
اونچے نیچے ٹیلوں سے بھرے اور تا حدِّ نگاہ تک پھیلے اُس میدان میں ایک سوار سر پٹ دوڑا چلا جا رہا تھا۔ اس نے گرم ہوا کی تپش سے بچنے کے لیے اپنے چہرے کو سفید عمامے سے ڈھانپ رکھا تھا۔ سُبک رفتار گھوڑی پر سوار تیز ہوا سے لہراتی عَبا دور سے ہی اس کے شہ سوار ہونے کو ثابت کر رہی تھی۔ اس کی کمر سے بندھے ہتھیار اُس کی شجاعت و بہادری بیان کررہے تھے۔
گرم ہوا کے تھپیڑے، آگ برساتا سورج اور گَرد و غبار کے طوفان بھی اس کی رفتار کو کم نہ کر سکے۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی کی تلاش میں ہے۔ اسے کچھ دُور چند اونٹ نظر آئے۔ اس سوار نے اپنی بھنووں پر ہاتھ رکھ کر ایک لحظہ غور کیا اور اپنی رفتار مزید تیز کردی۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور انھیں ڈھونڈ لے اور وہ انعام سے محروم رہ جائے…. اسے اُن تک جلد از جلد پہنچنا تھا۔
قریب پہنچنے پر اسے اندازہ ہوا کہ یہ وہ نہیں ہیں جن کی اسے تلاش ہے۔ اس نے چہرے سے نقاب ہٹایا، ’چھاگل‘ سے نکال کر چہرے پر پانی چھڑکا اور پھر جلدی جلدی گھونٹ بھرتے ہوئے چاروں جانب نگاہیں دوڑانے لگا۔ کچھ نظر نہ آنے پر اس نے اپنی گھوڑی کو ایڑ لگائی اور تھوڑا آگے بڑھ گیا۔
٭….٭
اونٹوں کے ساتھ موجود ’شتر بان‘ نے ایک نظر اس شہ سوار کی جانب دیکھا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا: ”تم نے سنا ہے۔ کل رات ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے محمد کے گھر کا محاصرہ کرلیا تھا؟“
”ہاں! میں نے بھی سنا تھا مگر وہ اُن کے ہاتھ نہ آسکے بلکہ صبح ابو طالب کا بیٹا علیؓ ان کے گھر میں سوتا ہوا پایا گیا تھا۔“ دوسرے بَدُّو نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
”ارے اس سے بھی عجیب اور حیرت انگیز بات بتاؤں؟“ پہلے بَدُّو کی اس بات پر باقی دونوں اس کی جانب متوجہ ہوگئے۔
”ہاں ہاں….بتاؤ۔“
”صبح مکے میں ایک شخص منادی کر رہا تھا کہ جو عبداللہ کے بیٹے محمد کو پکڑ کر لائے گا، اُسے سو سرخ اونٹ انعام میں دیے جائیں گے۔“
”سس…. سو سرخ اونٹ؟“ دونوں کے منھ اور آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
”اتنا زیادہ انعام؟“
٭….٭
شہ سوار ان عربی بدوؤں سے کہیں آگے جا چکا تھا۔ اس کی رفتار بار بار ان سو سرخ اونٹوں کے بارے میں سوچ سوچ کر بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی جن کو پانے کے بعد اس کی عزت، دولت اور شہرت میں اضافہ ہونے والا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد اسے یقین ہوگیا کہ وہ درست سمت میں جا رہا ہے کیوں کہ اسے سامنے موجود ٹیلے سے کچھ فاصلے پر وہ لوگ نظر آچکے تھے جن کی اسے تلاش تھی۔ یہ تین سوار محمد، ان کے ساتھی ابو بکر صدیق ؓاور عامر بن فہیرہ ؓتھے۔
شہ سوار کی متلاشی آنکھیں اب انعام کا سوچ کر چمکنے لگی تھیں۔ وہ کامیابی کے بس قریب ہی تھا کہ اچانک اس کی گھوڑی ایک زور دار ٹھوکر کھا کر گر پڑی اور وہ جو خوب جوش و خروش کے ساتھ انھیں پکڑنے جارہا تھا، اب منھ کے بل زمین پر آرہا۔
وہ تینوں سوار اب رُک کر اس کی جانب دیکھ رہے تھے۔
”یہ تو ’سراقہ بن مالک‘ ہے۔ قبیلہ بنو مدلج میں اس جیسا کوئی اور شہ سوار نہیں ہے۔“ وہ اُسے پہچان گئے تھے۔
سراقہ اپنی عبا جھاڑتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس کا دل اب عجیب کشمکش میں مبتلاتھا….
”یہ کیا ہوا، کیسے ہوا، کہیں محمد واقعی خدا کے پیغمبر تو نہیں ہیں یا ان کے ساتھ کوئی غیبی طاقت تو نہیں؟“
اگلے ہی لمحے اس نے دل میں آنے والے ان خیالات کو جھٹک دیا۔
”ویسے گھوڑوں کو اتفاقاً بھی ٹھوکر لگ ہی جاتی ہے۔ کوئی بات نہیں۔“ اس نے ایک بار پھر اپنے ہتھیار درست کیے اور گھوڑی پر جا بیٹھا۔
گھوڑی نے ابھی ذرا سا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ دوبارہ وہی عجیب ماجرا پیش آیا۔ اس کی گھوڑی کو ایک بار پھر ٹھوکر لگی اور سراقہ اپنے ہتھیاروں سمیت دوبارہ زمین پر آگرا۔ اس بار ہوا یوں کہ گھوڑی کے اگلے دونوں پیر اب زمین میں دھنس گئے تھے۔ اب تو اسے یقین ہو گیا کہ وہ جس کی تلاش میں نکلا ہے، وہ کوئی عام شخص نہیں۔ اس نے اپنے چہرے سے گَرد جھاڑتے ہوئے محمد سے معافی طلب کی: ”اے محمد! مجھے معاف کر دیجیے…. مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی۔ میں اونٹوں کی لالچ میں آگیا تھا۔ مجھے اندازہ ہوگیا ہے کہ آپ خدا کے نبی ہیں۔ اس لالچ نے مجھے بہکا دیا تھا مگر اب میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کے حوالے سے کوئی اطلاع قریشِ مکہ کو نہیں دوں گا۔“
محمد صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور سراقہ کو ایک بڑے انعام کی خوش خبری سنائی: ”اے سراقہ! اُس دن تیرا کیا حال ہوگا جب کِسریٰ (شاہ ایران) کے کنگن تیرے ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے؟“
سراقہ بن مالک قبیلہ ’بنو مدلج‘ کا عام سا بَدُّو تھا جو انعام کی لالچ میں ان کے پیچھے آیا تھا۔ یہ بات اس کو بہت عجیب لگی کہ کہاں میں اور کہاں شاہِ ایران کے کنگن…. مگر دل محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے سچا ہونے کی گواہی دے رہا تھا۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے امان لینے کے بعد سراقہ نے واپس مکے کی جانب لوٹ کر قریشِ مکہ کو اپنے تعاقب کی مہم کے بارے میں بتایا۔ اِس دوران جن لوگوں نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے رفقا کے تعاقب کی کوشش کی تو اُنھیں راہ سے بھٹکا کر کسی اور سمت روانہ کردیا۔
جب قریش کے تعاقب کرنے کی ہمت جواب دے گئی تو وہ اپنے قبیلے واپس چلے گئے۔
اس واقعے کو کئی برس گزر گئے تھے۔ مسلمان عرب سے نکل کر ایران کو بھی فتح کر چکے تھے۔ اب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا۔ شاہِ ایران کو دردناک شکست دینے کے بعد مالِ غنیمت جس میں سونے، چاندی، ہیرے، جواہرات اور دیگر قیمتی چیزیں موجود تھیں، اب مسلمانوں کی ملکیت میں تھا۔ اسی خزانے میں شاہِ ایران کے سونے کے کنگن بھی موجود تھے۔ حضرت عمر ؓ کی نظر جیسے ہی اس پر پڑی، اُنھیں فوراً محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا سراقہ بن مالکؓ کے بارے میں کہا گیا قول یاد آگیا اور انھوں نے سراقہ بن مالکؓو بلا بھیجا۔
سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کا دل بہت پہلے ہی اسلام کی صداقت پر ایمان لا چکا تھا۔ ان کا شمار اب صحابی کے طور پر ہوتا تھا۔
لوگوں کا ایک جمِ غفیر جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سراقہؓ کے بارے میں کی گئی پیش گوئی کو سچ ہوتا دیکھ رہا تھا۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جیسے ہی شاہِ ایران کے کنگن سراقہ ؓکے ہاتھوں میں پہنائے، لوگوں نے فلک شگاف آواز میں تکبیر کا نعرہ لگایا جس کا جواب وہاں موجود لوگ ’اللہ اکبر‘ سے دیتے ہوئے رب کی کبریائی بیان کرنے لگے۔
٭….٭
اس تحریر کے نئے الفاظ
سبک رفتار: تیز رفتار لحظہ: لمحہ ، آن واحڈ
عَبا: کپڑوں کے اوپر پہنے والا شیروانی طرز کا ڈھیلا ڈھالا قدرے لمبا لباس
شہ سوار: گھڑ سواری کے فن کا اُستاد
چھاگل: مشکیزہ، کوئی سیال چیز شراب یا روغن رکھنے کی چمڑے یا خاص کپڑے کی بنی ہوئی کپّی
ایڑ لگانا: جانور کو تیز چلانے کے لیے ایڑی کا ٹہوکا دینا
شتربان: اونٹ ہانکنے والا، اونٹ کا رکھوالا، ساربان
محاصرہ: چاروں طرف سے بند کر دینا، گھیرا ڈالنا
بَدّو: عرب کا دیہاتی شخص، صحرائی خانہ بدوش عرب
منادی: کسی امر کے لیے آواز لگانے کا عمل، ڈھنڈورا، اعلانِ عام سرخ اونٹ: (مجازاً) بہت قیمتی چیز