لفظ ’تھکن‘ ہمیں روز مرہ زندگی میں اکثر سننے کو ملتا ہے۔ دراصل اس لفظ کے استعمال سے اُس جذبے کا اظہار مقصور ہوتا ہے، جس میں ہماری جسمانی قوت کم ہوجاتی ہے اور ہمارا جسم مزید فرماں برداری سے انکار کردیتا ہے۔ چنانچہ ہمیں اس بغاوت کو قابو کرنے کے لیے ’آرام‘ کی صورت میں کُمک طلب کرنا پڑتی ہے۔ اگر خدانخواستہ کمک بروقت نہ پہنچ سکے تو تھکن کے ساتھ بیماری بھی حملہ آور ہوتی ہے۔
تھکن ہمارے جسم پر کئی طرح سے اثر انداز ہوتی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے ہمیں اس کی اقسام اور اسباب کا جائزہ لینا ہوگا، تاکہ ہم اس مقصد کے لیے مناسب لائحہ عمل اختیار کرسکیں۔ ماہرین نے تھکاوٹ کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔
جسمانی تھکاوٹ
ایسے کام جن میں جسمانی اعضا زیادہ استعمال ہوں۔ مثلاً وزن اٹھانا، کُھدائی کرنا، دوڑ لگانا اور فٹ بال کھیلنا وغیرہ۔ ان میں ایک خاص وقفے کے بعد جسم میں بے چینی سی پیدا ہوجاتی ہے اور دل بے اختیار مچلنے لگتا ہے۔ اس کیفیت کو ماہرین نے جسمانی تھکاوٹ سے تعبیر کیا ہے۔
ذہنی تھکاوٹ
وہ کام جن میں بظاہر جسم حالت آرام میں اور ذہن مصروف عمل ہوتا ہے۔ مثلاً مطالعہ اور سوچ بچار کرنا۔ ان کے نتیجے میں ہونے والی تھکاوٹ کو ذہنی تھکاوٹ کہا گیا ہے۔
ذہنی تھکاوٹ اور جسمانی تھکاوٹ میں فرق کرکے یہ بتانا کہ کوئی انسان کس وقت جسمانی طور پر تھکاوٹ کا شکار ہے، خاصا دشوار ہے۔ کیوں کہ ذہنی تھکاوٹ کا براہ راست تعلق جسم کے عصبی نظام پر پڑتا ہے، جس سے ذہنی تھکاوٹ بھی جسمانی تھکاوٹ میں بدل جاتی ہے۔ اسی لیے طلبہ اور دفاتر میں فائل ورک کرنے والے خواتین و حضرات جو بظاہر تو جسمانی مشقت نہیں کرتے مگر مدارس اور دفاتر سے واپسی پر کچھ دیر آرام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، تاکہ وہ تازہ دَم ہو کر دیگر مصروفیات زندگی سے نمٹ سکیں۔
ذہنی تھکاوٹ کے سلسلے میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آپ ذہنی تھکاوٹ کا شکار اس وقت ہوں گے، جب کوئی کام بغیر کسی وقفے کے مسلسل کرتے رہیں۔
جھوٹی تھکاوٹ یا بوریت
یہ بات شعبۂ تعلیم سے وابستہ خواتین و حضرات اچھی طرح جانتے ہوں گے۔ جیسے ہی چھٹی کا وقت قریب آتا ہے۔ طلبہ کی لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت میں واضح فرق محسوس ہوتا ہے۔ وہ تھکے تھکے نظر آتے ہیں۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ تھک گئے ہیں۔ لیکن ماہرین، تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آخری پیریڈ میں طلبہ تھکاوٹ کا شکار نہیں ہوتے بلکہ وہ چھٹی کے بعد کی مصروفیات کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں، جس سے اُنھیں اپنی موجودہ حالت میں بوریت ہونے لگتی ہے اور وہ خود کو تھکا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
یہی بات دفاتر میں کام کرنے والے خواتین و حضرات پر بھی صادق اُترتی ہے۔ اس کیفیت کو ماہرین نے ’جھوٹی تھکاوٹ‘ کا نام دیا ہے۔
وجوہات و تدارک
بھرپور ناشتہ
ہمارے دیہات میں آج بھی اس کہاوت پر عمل کیا جاتا ہے کہ صبح کا ناشتہ بادشاہوں جیسا، دوپہر کا کھانا شہزادوں جیسا اور رات کا کھانا مفلس اور فقیروں جیسا کھاؤ جب کہ ہمارے شہروں میں بالکل اس کے برعکس صورتحال ہے۔
شہروں میں لوگ صبح ہلکا پھلکا ناشتہ کرکے مصروفیاتِ زندگی سے نبرد آزما ہونے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ جب کہ یہ ناشتہ انھیں مطلوبہ توانائی نہیں پہنچاتا، جس کی وجہ سے وہ بہت جلد تھک جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں یہ شکایت بھی عام ہے کہ صبح بھوک نہ ہونے کے باعث بھرپور ناشتہ کرنا ممکن نہیں۔ یہ بات زیادہ تر ان لوگوں میں پائی گئی ہے، جو رات کا کھانا بہت زیادہ اور دیر سے کھاتے ہیں۔ رات کو دیر سے سو کر صبح دیر سے اُٹھتے ہیں۔ اگر ان تمام باتوں سے پرہیز کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ صبح بھوک نہ لگے۔ چوں کہ دیہات میں لوگ رات کا کھانا مختصر اور جلدی کھا کر جلدی سوتے ہیں اور صبح سویرے اُٹھ بھی جاتے ہیں۔ اس لیے وہ بہت زیادہ مشقت کرنے کے باوجود تھکن کا زیادہ شکار نہیں ہوتے۔
صبح بخیر… دن بخیر
ماہرین نفسیات کی تحقیق کے مطابق انسان کے دن بھر کے موڈ اور کارکردگی کا انحصار صبح بیدار ہونے کے بعد تیس منٹوں پر ہوتا ہے۔
جو لوگ بیدار ہوکر پہلے تیس منٹ سے ایک گھنٹے تک کا وقفہ خوش و خرم طریقے سے گزار لیتے ہیں۔ وہ بقیہ پورا دن بہ حسن و خوبی گزارنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس ایسے افراد جو صبح بیدار ہوتے ہی کسی تلخ سوچ یا اُلجھنے کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کا پورا دن بیزاریت کا شکار رہتا ہے۔
اچھا دن گزارنے کے لیے ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ صبح سویرے ہی اپنے مسائل کا پنڈورا بکس کھول کر نہ بیٹھیں بلکہ اُنھیں دوپہر یا شام کے لیے بچا کر رکھیں تاکہ آپ کا دن اچھا گزرے۔
نیند لانے کا نسخہ
نیند تھکن سے نجات پانے کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ نیند کے سلسلے میں اکثر جو سوال پوچھا جاتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی نیند پوری نہ کرسکے تو کیا اس کی ذہنی اور جسمانی حالت پر بُرا اثر پڑتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں کی جانے والی تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک رات کے جاگنے سے انسان کی ذہنی اور جسمانی حالت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اگرچہ ۲۰ گھنٹوں کے بعد نیند کا احساس شدید ہوجاتا ہے۔ تاہم انسانی ذہن پوری طرح مستعد اور بیدار رہتا ہے لیکن اگر جاگنے کا دورانیہ مسلسل پچاس گھنٹوں سے بڑھ جائے تو انسانی جسم میں اس کا ردعمل شروع ہوجاتا ہے، جس سے تمام جسم متاثر ہوتا ہے۔ اس سے یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ ۵۰ گھنٹوں تک انسان بلاوجہ بھی جاگے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ جب تک کوئی خاص مجبوری نہ ہو تو آپ کو اپنی نیند کا دورانیہ کم نہیں کرنا چاہیے۔
فرانس کے ڈاکٹر ژاں شائو مختلف تجربات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلسل تین گھنٹے اور بھرپور نیند سب سے بہتر ہے۔ چونکہ لوگوں کے طبی اور جسمانی حالات مختلف ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ دورانیہ پانچ سے چھہ گھنٹے تک بھی ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر کے مطابق رات کی شفٹوں میں کام کرنے والے مزدور اگر ۳ سے ۷ بجے کے دوران ۲۰ منٹ کی نیند لے لیں تو ان کے جسم کی تھکن جاتی رہے گی اور وہ خود کو تازہ دَم محسوس کریں گے۔
بھرپور نیند کے خواہش مند لوگوں کو کبھی غصے کی حالت میں سونے کے لیے بستر پر نہیں جانا چاہیے۔ کیوں کہ غصے کی حالت میں سونا، بیدار ہونے کے بعد جذباتی تنائو کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح رات کو سونے سے پہلے مطالعہ کرنا بھی بھرپور نیند لانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ مطالعہ سے دماغ دن بھر کے خیالات کے ہجوم سے نکل کر کتاب پر مرکوز ہوجاتا ہے۔
درج ذیل علامات اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ آپ کی نیند کا دورانیہ کم ہے۔ آپ کو اسے بڑھانا چاہیے۔
٭… صبح بیدار ہونے کے بعد تازگی کے بجاے تھکن محسوس کرنا۔
٭ بار بار پریشان کن خیالات کا آنا۔
٭ جسم میں تنائو اور سختی پیدا ہوجانا۔
٭ طبیعت میں بے چینی محسوس کرنا۔
٭ بار بار بلاوجہ غصہ آنا۔
٭ کسی کام میں توجہ کا ختم ہوجانا۔
اعضا کی توانائیاں بحال کیجیے
ہم جو کچھ کھاتے ہیں۔ وہ ہضم ہو کر خون میں جذب ہوجاتا ہے۔ پھر یہ ہضم شدہ خوراک خون کے ذریعے جسم کے تمام حصوں کو توانائی فراہم کرتی ہے۔ ہمارے جسم کی تمام حرکات و سکنات اسی توانائی کی مرہونِ منت ہیں۔ جسم کے تمام اعضا کے خلیوں میں یہ توانائی معقول تعداد میں جمع ہوتی ہے۔ جب دماغ سے کسی عضو کو کوئی کام کرنے کی عصبی تحریک موصول ہوتی ہے تو متعلقہ عضو فوراً اس تحریک کے زیر اثر کام شروع کر دیتا ہے، جس سے اس کے پاس محفوظ شدہ توانائی خرچ ہونے لگتی ہے۔ اب اگر دماغ کسی عضو کو لمبے عرصے تک کام پر لگائے رکھیں تو اس کی تمام توانائی خرچ ہوجاتی ہے، جس کے باعث دماغ کو اس عضو سے تھکاوٹ کے سگنل موصول ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ دماغ کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ اس عضو کو کچھ دیر آرام کرکے دوبارہ توانائی جمع کرنے کا موقع دیا جائے، تاکہ وہ اسی طرح سرتسلیم خم کیے رکھے، بصورت دیگر وہ عضو بغاوت کرکے کام کرنے سے انکار بھی کرسکتا ہے۔
آکسیجن تھکن دور کرتی ہے
آکسیجن کو ہماری زندگی میں بنیادی اہمیت حاصل ہے کیوں کہ ہمارے جسم سے زہریلے مادوں کے اخراج میں آکسیجن کا کردار بڑا اہم ہے۔ اگر کسی وجہ سے جسم میں اس کی کمی ہوجائے تو انسان جلد ہی تھک جاتا ہے۔ ایسی صورت میں سیدھے کھڑے ہو کر ناک کے راستے لمبے لمبے سانس لینے چاہیے۔
تھکن کا ایک اور سبب
یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص لکھتے لکھتے تھک جاتا ہے تو وہ کچھ دیر کے لیے لکھنا بند کرکے ہاتھ کو سہلانے لگتا ہے۔ اسی وجہ سے پیدل سفر کرنے والا کوئی مسافر جب تھک جاتا ہے۔ وہ بیٹھ کر کچھ دیر کے لیے اپنے پائوں اور ٹانگوں کو آرام دیتا ہے۔ پھر کچھ دیر بعد وہ دوبارہ چلنا شروع کر دیتا ہے۔
ہمارے جسم میں جراثیم کے جمع ہونے کا مرکز ہمارا منھ ہے۔ جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو اس کے ذرّات ہمارے منھ میں رہ جاتے ہیں۔ اسی لیے ماہرین ہر کھانے کے بعد دانتوں اور منھ کی صفائی پر زور دیتے ہیں۔
کئی لوگ رات کے کھانے کے بعد منھ کی صفائی سے اس لیے کوتاہی برت جاتے ہیں کہ صبح ناشتے سے پہلے کرلیں گے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ کیوں کہ اگر رات کے کھانے کے بعد منھ کی صفائی نہیں کی جائے تو دوران نیند خوراک کے ذرات کا منھ میں گلنے سڑنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ بلکہ منھ میں مختلف قسم کے مرکبات بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ مرکبات صبح بیدار ہونے کے بعد بوجھل پن کا باعث بنتے ہیں۔
ایسے لوگ بھی تھکاوٹ کا آسانی سے شکار ہوجاتے ہیں۔ جو آنے والے وقت کے بارے میں بہت زیادہ سوچتے، ہر وقت منصوبہ بندی کرتے رہتے یا گزرے ہوئے واقعات پر پچھتاتے رہتے ہیں۔ یاد رکھیے جو کل گزر گیا ہے اس پر پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں اور جو کل آنے والا ہے وہ آپ کے تابع نہیں ہے۔ آپ کے پاس صرف آج ہے۔ اگر آپ اپنے آج کو ہنسی خوشی اور سلیقہ مندی سے گزاریں گے تو آپ گزرے ہوئے کل میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرسکتے ہیں اور آنے والے کل میں بھی کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں۔
٭…٭
اس تحریر کے مشکل الفاظ
کُمک: مدد، سہارا ؍ تدارک: تدبیر، انتظام
عصبی نظام: اعصاب و عصبی مراکز؍ نروس سسٹم (انگریزی)
نبرد آزما ہونا: لڑنا، جنگ کرنا
پنڈورا بکس: جس میں بہت سی دکھ دینے یا پریشان کرنے والی چیزیں ہوں
مستعد: آمادہ، تیار، حاضر
سر تسلیم خم کرنا: حکم ماننا، راضی بہ رضا ہونا
عصبی تحریک: پٹھے یا پٹھوں کو حرکت دینے کا حکم