مجھے احساس ہو گیا کہ وہ مجھے کیا سمجھ رہا ہے۔ اس خیال سے میں اور زیادہ گھبرا گیا۔
میں جب بھی کسی بینک میں جاتا ہوں تو مجھ پر گھبراہٹ طاری ہوجاتی ہے۔ کلرکوں کی شکلیں، مختلف کاونٹر اور ناموں کی تختیاں میری گھبراہٹ میں اضافہ کردیتی ہیں۔ بہت سارے پیسوں کو دیکھ کر مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ الغرض یہ کہ بینک میں موجود ہر شخص اور ہر چیز مجھے گھبراہٹ میں مبتلا کر دیتی ہے۔ جس لمحے میں بینک کی دہلیز پار کر کے اندر قدم رکھتا ہوں اور کسی قسم کا لین دین کرنے کی کوشش کرتا ہوں، میں ایک احمق بن جاتا ہوں۔ یہ سب کچھ مجھے پہلے سے معلوم ہے لیکن میری تنخواہ بڑھ کے پچاس ڈالرز ماہانہ ہوگئی تھی اور مجھے احساس ہوا کہ انھیں محفوظ کرنے کے لیے بینک سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں۔
سو میں لرزتا کانپتا بینک کے اندر داخل ہوا اور شرمیلے انداز میں کلرکوں کی طرف دیکھنے لگا۔
میرا خیال تھا کہ بینک اکاونٹ کھلوانے کے لیے صرف بینک مینیجر سے ہی بات کی جاسکتی ہے۔
میں ایک کاونٹر پر گیا، جہاں ’اکاو نٹنٹ‘ کی تختی لگی ہوئی تھی۔ وہ ایک لمبا چوڑا، سرد مزاج شخص تھا۔ اس کو دیکھتے ہی مجھ پر گھبراہٹ طاری ہوگئی۔
میں نے مری مری آواز میں پوچھا: ”کیا میں مینیجر سے مل سکتا ہوں؟“ ساتھ ہی میں نے بے حد سنجیدگی سے اضافہ کیا: ”اکیلے میں
میں نہیں جانتا کہ میں نے ”اکیلے میں“ کیوں کہہ دیا۔….!“
جی ضرور….“ اکاونٹنٹ نے کہا اور مینیجر کو بلا لایا۔
مینیجر بہت سنجیدہ اور متین شخص تھا۔ میری جیب میں اس وقت چھپن ڈالرز مڑی تڑی حالت میں موجود تھے، جنھیں میں یہاں جمع کرانے لایا تھا۔
”کیا آپ مینیجر ہیں؟“ میں نے پوچھا۔اگرچہ خدا گواہ ہے کہ مجھے اس کے مینیجر ہونے میں رتی برابر بھی شبہ نہ تھا۔
”جی ہاں….“ اس نے جواب دیا۔
”کیا میں آپ سے بات کرسکتا ہوں…. اکیلے میں؟“ میں دوبارہ یہ الفاظ ’اکیلے میں‘ استعمال نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن ان الفاظ کے بغیر میرا جملہ بے معنی ہوجاتا کیوں کہ میں اس وقت بھی مینیجر سے بات ہی تو کر رہا تھا۔
مینیجر نے مجھے حیرت سے دیکھا۔ اسے محسوس ہوا کہ میرے پاس افشا کرنے کے لیے کوئی بہت بڑا راز ہے۔
”آپ اس طرف آجائیے۔“ اُس نے کہا اور مجھے ہال سے متصل ایک علیحدہ کمرے میں لے آیا۔
اندر آکے اس نے دروازہ مقفل کر لیا۔
”یہاں پر کوئی ہماری گفتگو میں مداخلت نہیں کرسکے گا۔ تشریف رکھیے۔“ مینیجر نے کہا۔
ہم دونوں بیٹھ گئے اور ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے۔ اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے میرے منھ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔
”میرا خیال ہے کہ آپ پنکرٹن کی خفیہ ایجنسی سے تعلق رکھتے ہیں؟“ اس نے پوچھا۔
یہ اندازہ شاید اس نے میرے پُراسرار اندازِ گفتگو سے لگایا تھا۔ مجھے احساس ہو گیا کہ وہ مجھے کیا سمجھ رہا ہے۔ اس خیال سے میں اور زیادہ گھبرا گیا۔
”نہیں، میں پنکرٹن کی ایجنسی سے نہیں آیا۔“ میرے جواب سے کچھ ایسا تاثر مل رہا تھا جیسے میں کسی اور خفیہ ایجنسی سے آیا ہوں۔
میں نے جلدی جلدی کہنا شروع کیا جیسے مینیجر نے میرا جھوٹ پکڑ لیا ہو: ”سچ تو یہ ہے کہ میں سرے سے کوئی جاسوس نہیں ہوں۔ میں یہاں اپنا اکاونٹ کھلوانے آیا ہوں اور اپنا تمام پیسہ اس بینک میں رکھنا چاہتا ہوں۔“
مینیجر نے سکون کا سانس لیا لیکن وہ ابھی تک بہت سنجیدہ نظر آ رہا تھا۔ اس نے میری گفتگو سے اب یہ نتیجہ نکالا کہ میں ’بیرن روتھ چائلڈ‘ یا ’گولڈ خاندان‘ کا فرد ہوں۔
”آپ میرے خیال میں بہت بڑا اکاونٹ کھلوانے جارہے ہیں؟“ اس نے پوچھا۔
”جی کافی بڑا….!“ میں نے سرگوشی میں کہا: ”میں ابھی چھپن ڈالرز جمع کرانے جا رہا ہوں۔ اس کے بعد میں ہر مہینے پچاس ڈالر جمع کراوں گا۔“
مینیجر کھڑا ہوا اور دورازہ کھول دیا۔ اس نے اکاونٹنٹ کو آواز دی: ”مسٹر منٹگمری! یہ صاحب اپنا اکاونٹ کھلوانا چاہتے ہیں، جس میں یہ چھپن ڈالرز جمع کرائیں گے۔ شکریہ….“
اس کی آواز خاصی اونچی تھی اور اس میں بدتمیزی کا شائبہ بھی تھا۔
میں کھڑا ہوگیا۔ کمرے کے ایک کونے میں بڑا آہنی دروازہ کھلا ہوا تھا۔
”شکریہ….“ میں نے کہا اور دروازے میں داخل ہوگیا جو دراصل بینک سیف کا دورازہ تھا۔
”باہر آجائیں۔“ مینیجر نے سرد مہری سے کہا اور کمرے سے باہر نکلنے والا راستہ دکھایا۔ میں اکاونٹنٹ کے کاونٹر پر گیا اور مڑے تڑے چھپن ڈالرز کا گولا جیب سے نکال کر اس کے سامنے یوں ڈالا جیسے کوئی جادوگر اپنے رومال سے خرگوش برآمد کرکے دکھاتا ہے۔
میرا چہرہ گھبراہٹ کے مارے پیلا پڑ چکا تھا۔
”یہ جمع کرانے ہیں۔“ میں نے بے تکلفی سے چھپن ڈالرز دیتے ہوئے کہا۔
اس نے پیسے اُٹھائے اور دوسرے کلرک کو دے دیے۔
کلرک نے ایک رسید پر مجھے کل رقم کا اندراج کرنے کے لیے کہا اور ایک رجسٹر میں مجھ سے دستخط لیے۔
مجھے کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ میں کر کیا رہا ہوں۔ بینک میری نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا۔
”کیا میرے پیسے اکاونٹ میں جمع ہوگئے ہیں؟“ میں نے تھرتھراتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
”جی ہاں۔“ اکاونٹنٹ نے جواب دیا۔
”تو میں اس میں سے کچھ رقم نکلوانا چاہتا ہوں۔“ میں جمع کردہ رقم میں سے چھہ ڈالرز فوری استعمال کے لیے نکلوانا چاہتا تھا۔
ایک شخص نے کاونٹر سے چیک بک میرے حوالے کی اور دوسرے نے مجھے یہ بتانا شروع کیا کہ چیک کیسے لکھا جاتا ہے۔ بینک کے عملے کا میرے بارے میں شاید یہ خیال تھا کہ میں کوئی خبط الحواس ارب پتی ہوں۔
میں نے چیک پر کچھ لکھا اور کلرک کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے چیک کو دیکھا۔
”یہ کیا….؟ آپ اپنی ساری جمع شدہ رقم واپس نکلوانا چاہتے ہیں؟“ اس نے حیران ہو کر کہا۔
تب مجھے احساس ہوا کہ میں نے گھبراہٹ میں چیک پر چھہ ڈالرز کے بجاے چھپن ڈالرز لکھ دیے تھے۔
مجھے احساس ہوا کہ اس بات کی وضاحت دینا میرے لیے ناممکن ہے۔
تمام کلرک اپنا کام چھوڑ کر میری طرف دیکھنے لگے۔
شرمندگی کے احساس سے لاپروا ہو کر میں نے فوراً جواب دیا: ”ہاں….! ساری رقم….“”آپ بینک سے اپنے سارے پیسے نکلوانا چاہتے ہیں؟“ کلرک نے تصدیق چاہی۔
”ایک ایک پائی….“
”کیا آپ دوبارہ اکاونٹ میں پیسے جمع نہیں کرائیں گے؟“ کلرک نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔
”کبھی نہیں….“
میرے دل میں ایک احمقانہ امید پیدا ہوئی۔ شاید یہ لوگ خیال کریں کہ چیک لکھتے ہوئے ان کی کسی بات کو میں نے اپنی توہین سمجھا اور اسی وجہ سے اپنا اکاونٹ کھولنے کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔ یہ سوچ کر میں خود کو ایک گرم مزاج شخص ظاہر کرنے کی قابل رحم کوشش کرنے لگا۔
کلرک نے متاثر ہوئے بغیر پیسوں کی ادائیگی کے لیے اپنی دراز کھولی۔
”آپ کو کون سے نوٹ چاہئیں؟“ اس نے پوچھا۔
”کیا….؟“ میں نے ہونقوں کی طرح پوچھا۔
”آپ کو کون سے نوٹ دوں؟“ اس نے دہرایا۔
”اوہ….!“ مجھے اب اس کی بات کا مطلب سمجھ میں آیا اور میں نے مزید سوچنے کے بجاے فوراً جواب دیا: ”پچاس کے نوٹوں کی شکل میں….“
کلرک نے مجھے پچاس ڈالرز کا ایک نوٹ تھما دیا۔
”اور چھے ڈالر؟“ اس نے خشک لہجے میں سوال کیا۔
”چھے ڈالرز کے نوٹ۔“ میں نے کہا۔
اس نے مجھے چھے ڈالرز دیے اور میں پیسے لے کر سرپٹ باہر دوڑا۔
جب میں بینک کا بڑا سا دروازہ کھول کر باہر نکل رہا تھا تو مجھے اپنے پیچھے فلک شگاف قہقہوں کی گونج سنائی دی۔
اس دن کے بعد سے میں نے کبھی بینک کا رُخ نہیں کیا۔ اب میں روزمرہ استعمال کے پیسے اپنی پینٹ کی جیب اور بچت اپنے موزے میں رکھتا ہوں۔
٭….٭
کہانی: My Financial Career
مصنف: Stephen Leacock
نئے الفاظ
بیرن روتھ چائلڈ یا گولڈ خاندان: مغرب کے دو امیر ترین خاندان
سرد مہری: بے رخی، بے مروتی، سنگ دلی
خبط الحواس: حواس باختہ، گھبرایا ہوا
ہَوَنِّق: احمق، بیوقوف، کم فہم
٭….٭