’’کہیں نوفل اور عبداللہ کی طرح آپ کی بھی عیدی خطرے میں تو نہیں…؟‘‘ پڑھیے ایک دل چسپ تحریر
وہ گھٹنوں کے بل رینگتے ہوئے اپنے خیمے سے نکل کر دشمن کے خیمے کی جانب بڑھ رہا تھا۔ پسینے کے قطرے اس کی پیشانی پر نمایاں نظر آرہے تھے۔ اس جوان کو اپنے چھلتے گھٹنوں اور کہنیوں کی کوئی پروا نہیں تھی۔ وہ رینگتا ہوا دشمن کی پناہ گاہ کے بے حد قریب پہنچ گیا تھا۔ اُس نے ہاتھ آگے بڑھایا اور ایک ہی بازو کو استعمال کرتے ہوئے دشمن کا خیمہ جڑ سے اُکھاڑ پھینکا۔ خیمہ اُکھرتے ہی ایک زور دار چیخ کی آواز آئی: ’’بھائی جان! یہ آپ نے کیا کِیا؟‘‘
لحاف تلے دبے ہوئے نوفل نے دہائی دی۔ یہ سوال کم اور احتجاج زیادہ تھا۔
’’میں جیت گیا… میں جیت گیا۔ دشمن کو چاروں شانے چِت کرنا اِسی کو تو کہتے ہیں۔ اب تمھارا آخری وقت آگیا ہے نوفل… کلمہ پڑھ لو۔‘‘ عبد اللہ نے ڈرامائی انداز میں کہتے ہوئے لحاف مزید دُور پھینکا اور نوفل کو قابو کرکے ہاتھ میں پکڑے پلاسٹک کے بلے کو تلوار کی طرح استعمال کرتے ہوئے نوفل کی گردن پہ لگا دیا۔
’’کلمہ تو بھائی جان۔ آپ کو بھی میرے ساتھ پڑھنا پڑے گا۔‘‘ نوفل نے دروازے کی طرف آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ جہاں آپی کھڑی تھیں۔
آپی کی آنکھوں میں غصہ، چہرے پر غضب جب کہ قدموں میں لحاف تھا۔ آپی کو دیکھتے ہی عبد اللہ نے یک دم نوفل کو چھوڑا تو اُس کا ماتھا سیدھا زمین سے جا لگا۔
’’اس سے تو بہتر تھا۔ آپ میرے گردن پہ تلوار پھیر دیتے۔‘‘ نوفل پیشانی سہلاتے اور منھ بسورتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا۔
’’تلوار تو میں پھیرتی ہوں… ابھی تم دونوں کی گردنوں پر…‘‘ آپی اب غصے کا عملی اظہار کرنے کو بے تاب تھی۔
’’پورے گھر کے کشن یہاں لا کر جمع کر دیے۔ ان سے بھی کام نہ بنا، تو الماری سے دھلی ہوئی چادریں بھی لائی گئیں، وہ بھی کم پڑیں تو لحاف تک نکال لیا گیا۔‘‘
ابو کی عدالت میں آپی کا بیان جاری تھا۔ عدالت جاے وقوعہ پر ہی لگا دی گئی تھی اور وہیں عبد اللہ اور نوفل سر جھکائے کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
’’دیکھو بیٹا…!‘‘ ابو نے عبداللہ اور نوفل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’ابو! ابھی اور تو سنیں۔‘‘ ابو ابھی گویا ہوئے ہی تھے کہ آپی نے دوبارہ کہنے لگیں: ’’فردِ جرم ابھی باقی ہے۔ اِن لوگوں نے باورچی خانے سے پتیلیوں کے ڈھکن تک اُٹھا کر کمرے میں ڈھیر لگا دیے ہیں۔‘‘
آپی ابو کے سامنے متواتر ثبوت پیش کررہی تھیں۔
’’وہ ہمیں تلوار کے وار سے بچنے کے لیے ڈھال کی بھی ضرورت تھی ناں۔‘‘ نوفل نے معقول وجہ پیش کی تو آپی کی آنکھوں سے نکلتی چنگاریوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔
’’بھئی آپی! ہم کھیل کر سمیٹ دیتے ناں۔‘‘ عبد اللہ نے بھی بالآخر اپنی زبان کھولی۔
’’ابو! آپ کو معلوم ہے۔ آج کل کام والی بھی نہیں آ رہی ہے۔ سارے کام خود کرنے پڑ رہے ہیں۔ مجھے عید سے پہلے پورے گھر کی صفائی بھی کرنی ہے۔ لیکن یہ دونوں روز اتنا کام پھیلا دیتے ہیں کہ صفائی کے لیے وقت ہی نہیں ملتا۔‘‘ آپی عبد اللہ کو نظر انداز کر کے ابو سے بات کرتے ہوئے تقریباً رونے کو تھی۔
’’تو بھئی، روز روز صفائی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ نوفل چڑ کر بولا۔
’’ایک تو آپی صفائی کرنے کے بعد چاہتی ہیں کہ سب گھر سے نکل کر باہر سڑک پر بیٹھ جائیں تاکہ گھر گندا نہ ہو…‘‘ عبداللہ نے آپی کو آڑے ہاتھوں لیا اور پھر ابو کی طرف دیکھ کر کہنے لگا: ’’ابو اب آپ ہی بتائیں۔ اس لاک ڈاؤن میں ہم کیا کریں؟ فٹ بال کھیلو تو امی نیچے والوں کی پریشانی کا کہتی ہیں۔ لیپ ٹاپ چلانے لگو تو تھوڑی دیر میں سب مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر فارغ بیٹھے رہیں، تو چلتے پھرتے امی اور باجی طعنے دیتی رہتی ہیں۔‘‘
ابو نے پُرسوچ نگاہوں سے عبداللہ کو دیکھا تو اس سے اتفاق کرتے ہوئے دو تین بار سر بھی ہلایا۔
ابو، آپی حتیٰ کہ نوفل نے بھی عبد اللہ کی بات پر اُسے غور سے دیکھا تو وہ اپنی ختم ہوتی تقریر میں اضافہ کرتے ہوئے کہنے لگاـ: ’’اور ابو یہ بھی بتائیں… آخر عید کی اتنی صفائی کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ لاک ڈاؤن میں کون آئے گا عید ملنے؟‘‘
قریب تھا کہ آپی پاس رکھا پتیلی کا ڈھکن عبد اللہ کے سر پر مارتی اور بلے سے نوفل کا سر قلم کر دیتیں۔
ان سارے معاملات کو دیکھ کر ابو نے مختصر ترین الفاظ میں عبد اللہ اور نوفل کو کمرہ سمیٹنے کی ہدایت دے کر عدالت برخاست کر دی۔
٭…٭
کھڑکی سے آسمان پر چمکتا چاند واضح نظر آ رہا تھا۔ جو چند دنوں میں باریک ہو کر مبارک مہینے کی نوید دینے والا تھا۔
نوفل پاس رکھے صوفے کی پشت پر ٹھوڑی ٹکائے چاند کو بغور دیکھتے ہوئے کہنے لگا: ’’بھائی جان! اس مرتبہ روزے کیسے گزریں گے؟‘‘
’’کیا مطلب کیسے گزریں گے؟ ویسے ہی گزریں گے، جیسے ہر بار گزرتے ہیں۔‘‘ عبد اللہ نے اشتیاق احمد کے ناول سے بغیر سر نکالے کہا۔
’’نہیں… بھائی جان! ہر بار جیسے نہیں۔ اس بار تو لاک ڈاؤن میں روزے گزریں گے۔‘‘ نوفل نے عبداللہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اوہ ہاں…‘‘ عبد اللہ نے ناول ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔
’’ہم روزوں میں کتنے مزے کرتے تھے ناں، سحری کے بعد دوستوں کے ساتھ کھیلنا، آپی کے کہنے پہ بار بار بازار کا چکر لگانا۔ اُف… ایک تو آپی بھی ایک مرتبہ ساری چیزیں نہیں بتاتی۔‘‘ نوفل نے آپی کا نام آتے ہی اپنی بات روک دی۔
’’اور وہ گھر گھر افطار تقسیم کرنا۔‘‘ عبد اللہ نے بھی یاد تازہ کی۔
’’بھائی جان! یاد ہے پچھلے رمضان میں جب ہم آپی کی سہیلی کے گھر افطار پہنچانے گئے تھے اور آپ راستے میں ہی سارے سامان سمیت گر گئے تھے۔‘‘ نوفل نے قہقہہ لگایا۔
’’ہاں یار… آج تک آپی سوچتی ہوں گی کہ ان کی سہیلی کیسی بے مروت ہے۔ جوابی افطاری تو کیا شکریہ تک نہیں بھجوایا۔‘‘ عبد اللہ نے کہا تو دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’ہائے… اس بار تو ہم اُن خاص لوازمات سے بھی محروم ہو جائیں گے، جو محلے سے آنے والی افطاری میں سے دروازے پر ہی ہم اپنے لیے الگ کرکے چھپا لیا کرتے تھے۔ ہائے اللہ…! کیا اس بار افطاری کا بھی لین دین نہیں ہوگا؟‘‘ نوفل اداسی سے بولا۔
’’لین دین سے یاد آیا نوفل…! عیدی؟‘‘ عبد اللہ نے عیدی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا۔
’’اوہ نہیں… اس بار تو عیدی بھی بہت خطرے میں ہے۔‘‘ نوفل کے چہرے پر جہاں بھر کی بے چارگی در آئی۔
’’اس بار تو عیدی کے حوالے سے میرے لمبے چوڑے منصوبے تھے۔ ویسے اس مرتبہ عید کیسے ملیں گے؟ مطلب نہ ہاتھ ملائیں گے اور نہ ہی گلے ملیں گے۔ بس دور سے ہی عید مبارک کہہ دیں گے۔‘‘ عبد اللہ نے ایک اور پہلو پر روشنی ڈالی۔
گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا گیا اور نجانے کس وقت دنوں بھائی اونگھنے لگے۔
٭…٭
’’نوفل! آج ناشتے کے برتن دھونے کی باری آپ کی ہے۔ کھانے کی میز کے گرد بیٹھے تمام افراد ناشتے میں مصروف تھے۔‘‘ آپی کی بات سنتے ہی خستہ پراٹھے کا نوالہ اچانک نوفل کو حلق میں چبھتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
’’زینب کے ابا! بھئی، ان بچوں کے بالوں کا تو کچھ کریں۔ عجیب بے تکے انداز سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔‘‘ امی نے چاے کا کپ ابو کی جانب بڑھاتے ہوئے، بچوں کے بالوں کی طرف توجہ دلائی تو نوفل اور عبداللہ اپنے سر پہ ہاتھ پھیر کے رہ گئے۔
’’بیگم صاحبہ! اسی طرح کام چلائیں۔ اوّل تو نائی کی کوئی دُکان نہیں کھل رہی اور کوئی کھول بھی لے تو باری کا آنا بہت مشکل ہے۔‘‘ ابو نے اس معاملے سے بالکل ہی ہاتھ اٹھا لیا تھا۔
’’ویسے برخور دار آپ کیا ناخن بھی نائی سے ترشواتے ہیں؟‘‘ ابو کی نظر عبد اللہ کے ہاتھوں پر پڑی۔
’’اوہو… ابو! آپ سمجھے نہیں۔ آج کل یہ جو کھیل کھیل رہے ہیں ناں۔ اُس میں تلوار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اس لاک ڈاؤن میں تلوار کہاں سے ملی گی۔ بس اسی مقصد کے لیے ناخنوں کو تیار کیا جا رہا ہے۔‘‘ آپی نے دن کا آغاز اپنے مخصوص انداز سے ہی کیا۔
’’ویسے جب سے لاک ڈاؤن ہوا ہے۔ آپی ہر وقت ہی پنجے تیز کیے بیٹھی رہتی ہیں۔‘‘ نوفل، عبد اللہ کے کان میں گھس کے بولا تو آپی کی گھورتی آنکھوں کی تاب نہ لاتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔
٭…٭
’’کیا بات ہے۔ تم دونوں کیوں منھ لٹکائے بیٹھے ہو؟‘‘ آپی نے دونوں کا چہرہ اُترا ہوا دیکھا تو چاے کی پیالی لیے ان کے پاس آکر بیٹھ گئیں۔
نوفل ہاتھ میں پکڑی ربڑ کی گیند کو بار بار دیوار پہ مار رہا تھا جب کہ عبد اللہ ناول کے سرورق کو تاڑنے میں مصروف تھا۔
’’کچھ نہیں آپی! بس سوچ رہے ہیں۔ ان حالات میں رمضان اور عید کیسے گزاری گی۔‘‘ عبداللہ نے بیزاری سے کتاب کو اُلٹ پلٹ کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ناں… نہ گھومنا پھرنا، نہ اِفطار کی دعوتیں، ہمارا کھیل کود، اور پھر عید… آپی اگر ہمیں عید بھی ایسے ہی گزارنی پڑی تو کیا ہوگا؟‘‘ دونوں کے لہجوں میں گھبراہٹ تھی۔
آپی نے جب ان کی روداد سنی تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’میرے نٹ کھٹ بھائی، بھلے سارا دن ناک میں دَم کر کے رکھیں۔ لیکن انہی سے گھر کی رونق ہے۔ دیکھو! اب میری بات سنو… تم لوگوں نے اس بات پر غور کیا کہ حالات جیسے بھی ہوں، روزے تو سب کو لازمی رکھنے ہی ہیں۔ شدید سردی ہو یا شدید گرمی… مسلمان ہر حال میں روزے رکھتے ہیں۔ دنیا کے کسی حصے میں مسلمان سردی کے روزے رکھیں گے اور کسی حصے میں گرمی کے لیکن آج کل کا معاملہ ذرا پیچیدہ ہے اور وہ ان خاص حالات کا شکار ہونا ہے۔ لیکن ان حالات میں وہ پیچھے نہیں ہٹ جائیں گے بلکہ پہلے سے زیادہ جوش و خروش سے روزے رکھیں گے… رہی بات عید کی… تو میرے پیارے بھائیو! عید کی خوشی دراصل کس چیز سے ہے؟‘‘ آپی نے سمجھاتے سمجھاتے اچانک سوال کیا تو آپی کے سوال پر دونوں ہی ایک دم سے چونک گئے۔
’’ارے بھئی، ہم عید کیوں مناتے ہیں؟‘‘ اب انھوں نے بچوں کے لیے اپنا سوال مزید آسان کر دیا۔
’’میں بتاتا ہوں… کیوں کہ ہم روزے رکھتے ہیں ناں۔ اس لیے عید مناتے ہیں۔‘‘ نوفل جوش سے کھڑا ہو کر کہنے لگے۔
’’بالکل…!‘‘ آپی نے تائید میں سر ہلایا۔
’’تو جب ہم اس بار بھی روزے رکھیں گے تو عیدکیسے نہیں منائیں گے؟ بس اس بار طریقہ ذرا مختلف ہوگا۔ چوں کہ ہم باہر نہیں جاسکتے تو ان شاء اللہ جو تفریح ہم گھر پر کرسکیں وہ لازمی کریں گے۔‘‘ آپی نے پیار سے نوفل کی ٹھوڑی پر ہاتھ لگاتے ہوئے کہا تو دونوں بھائیوں کے چہرے پر اطمینان پھیلا اور اُنھیں بھی تسلی ہوئی۔
’’اور… عیدی…‘‘ عبداللہ نے اپنے تئیں سب سے اہم سوال کیا۔
’’عیدی…‘‘ آپی نے عبداللہ کی بات دُہرا کر تھوڑا سوچا اور پھر کہنے لگیں: ’’کم از کم امی، ابو اور میں تو عیدی دوں گی ہی ناں۔‘‘ آپی نے جیسے ہی ان کی عیدی کا مسئلہ حل کیا تو دونوں مسکرا دیے۔
’’ہاں ایک بات اور…‘‘ آپی کھڑے ہوتے ہوتے دوبارہ بیٹھ گئیں۔
’’میں سوچ رہی ہوں کہ میرے پاس کچھ بچت بھی ہے۔ کیا پتا میں اس بار تمھارا نقصان پورا کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ عیدی دوں۔‘‘ آپی نے بچوں کے مطلب کی بات انھیں بتائی تو وہ دونوں جھومنے لگے۔
’’یاہوو…! آپی زندہ باد…!‘‘ دونوں بھائیوں نے زور سے نعرہ لگایا تو آپی مسکراتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھ گئیں۔
’’اور سنو…‘‘ آپی دروازے سے پلٹتے ہوئے کہنے لگیں: ’’یہ دوسری والی پیشکش اس صورت میں قابلِ عمل ہوگی۔ جب آپ دونوں روز میرے ساتھ گھر کے کام کروائیں گے۔‘‘ آپی نے جاتے جاتے ان کے لیے ایک مشکل کھڑی کر دی۔
’’آپی…‘‘ آپی نے جیسے ہی یہ بم پھاڑا تو دونوں کی شکلیں رونے والی ہوگئیں۔
’’اور ہاں! تم لوگوں کے خیمے لگانے اور جنگیں کرنے پر میں اب کوئی شور نہیں مچاؤں گی۔ بس خود سے سارا سامان سمیٹ دیا کرنا۔‘‘ آپی نے اُنھیں مزید ایک خوشخبری سنائی۔
اب وہ واقعی بات ختم کرکے جا چکی تھیں۔
’’بات تو آپی کی بالکل ٹھیک ہے۔ ہمیں ہر حال میں ماننا بھی پڑے گی۔‘‘ نوفل نے کہا تو عبد اللہ نے سنجیدگی سے سر ہلا دیا۔
’’اچھا سنو… میں صفائی کر دیا کروں گا، برتن تم دھونا۔‘‘ عبداللہ نے نوفل سے کہا۔
’’نہیں بھئی، برتن آپ دھونا… میرے لیے صفائی ٹھیک ہے۔‘‘ نوفل نے عبداللہ کی بات سے یکسر انکار کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں بھئی صفائی…‘‘
’’نہیں برتن…‘‘
اس کے ساتھ ایک نئی دھینگا مشتی کا آغاز ہوچکا تھا۔ کمرے کی حالت کو تصور میں لاتے ہوئے آپی ریفری کا کردار ادا کرنے کے لیے کمرے کے باہر کھڑی آستینیں چڑھا رہی تھی۔
٭…٭
اس تحریر کے نئے الفاظ
لحاف: اوڑھ کر سونے کی لمبی چوڑی رضائی
کُشن: صوفوں اور کرسیوں وغیرہ میں استعمال کے لیے گول یا چکور تکیے
بے مروت: بے لحاظ، بے پاس ؍ تائید: حمایت، توثیق
ریفری (انگریزی): فریقین کی لڑائی کو روکنے والا