شکر ہے، مکان کی چھت تو نصیب ہوئی۔ اس شہر میں کرائے کا مکان تلاش کرنا بھی ایک آزمائش ہے۔“ اسلم میاں نے ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے گہرا سانس لیا۔

وہ مکان کا سامان مختلف کمروں میں پہنچا کر تھک چکے تھے۔ ابھی بھی کچھ بند ڈبے اور گتے کے کارٹن ان کے ارگرد بکھرے پڑے تھے اور کھولے جانے کے منتظر تھے۔

”لیجیے! چاے پی لیں، پھر باقی کام کرتے ہیں۔“ ان کی بیگم چاے کی پیالی ہاتھ میں لیے نمودار ہوئیں۔

”ہاں بھئی لاﺅ…. اس کی تو بہت طلب محسوس ہورہی ہے۔“ انھوں نے ہاتھ بڑھا کر پیالی تھام لی۔

”کرائے کے مکانوں میں رہنا اور بار بار بدلنا بھی ایک مصیبت ہے۔“ بیگم اسلم نے بھی ایک کرسی پر ڈھیر ہوتے ہوئے کہا۔

”اب تم ذرا اپنے بچوں کو سمجھا دینا کہ یہاں انسان کے بچے بن کر رہیں ورنہ کچھ ہی دنوں میں یہ مالک مکان بھی ہاتھ پکڑ کر باہر نکال دے گا۔“ اسلم میاں نے ذرا چِڑ کر کہا۔

”اے لو! تو کیا پچھلے مکانوں سے ہم اپنے بچوں کی وجہ سے نکلے ہیں؟ ذرا یاد کیجیے، پہلے مکان میں پانی کی کمی کا مسئلہ تھا، مالک مکان ہر وقت پانی کے مسئلہ پر جھک جھک کرتا تھا، دوسرے مکان کا مالک بہت جھگڑالو اور بدتمیز انسان تھا اور رہا پچھلا والا مکان تو وہ آسیب زدہ تھا، وہاں سے تو نکلنا ہی بہتر تھا۔“ بیگم اسلم کہتی چلی گئیں۔

”آسیب وہ نہیں، آپ کے بچے تھے بیگم صاحبہ….! جنھوں نے مکان میں اتنا اُدھم مچایا کہ مالک مکان کو ہمیں گھر خالی کرنے کا نوٹس دینا ہی پڑا۔“ اسلم میاں نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔

”خیر! آپ تو یہی کہیں گے، مرد کہاں مانتے ہیں ایسی باتوں کو؟ لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ وہ سب آسیب کی کارستانیاں تھیں، جو میرے بچوں کے گلے پڑگئیں اور مالک مکان کو ہمیں نکالنے کا بہانہ مل گیا…. وہ تو دراصل اس کو زیادہ کرائے پر ایک اور پارٹی مل گئی تھی، اس لیے اس نے یہ بہانہ بنا کر ہمیں چلتا کِیا لیکن میں تو کہتی ہوں کہ اچھا ہی ہوا کہ ہمیں اس آسیب زدہ مکان سے نجات مل گئی ورنہ آگے چل کر نجانے کیا کیا مصیبت اُٹھانا پڑتی؟“ بیگم اسلم نے پُرزور انداز میں کہا۔

”خیر جو بھی ہو، یہ مکان بہرحال بہت اچھا ہے اور مالک مکان بھی انتہائی شریف اور بااخلاق آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ ان کو ہم سے شکایت کا کوئی موقع ملے اور اس مکان کا بھی وہی حشر ہو جو ہمارے بچوں نے پچھلے مکانوں کا کیا تھا۔“ اسلم میاں نے اپنی بات اور چاے کی پیالی دونوں ایک ساتھ ختم کی اور کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

”ہنھ….“ بیگم نے سر جھٹک کر کہا اور اپنی چاے کی طرف متوجہ ہوگئیں۔

٭….٭

اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اسلم میاں کے بچے نہایت شریر تھے۔ نت نئی حرکتوں سے سب کو پریشان کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ مکان کی دیواروں پر پنسل سے لکیریں ڈالنا، نوک دار چیزسے دیواروں اور دروازوں کا روغن کُھرچنا، سیڑھیوں پر پانی گرانا اور منھ سے سیٹی لگا کر مسلسل بجانا، ان کے اہم کارنامے تھے۔ لیکن پچھلے مکان میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن کے بارے میں اسلم میاں کی بیگم کو یقین تھا کہ وہ ان کے بچوں کی نہیں بلکہ کسی آسیب کی کارستانی تھی۔ جیسے، ایک رات جب سب لوگ گہری نیند سورہے تھے تو اچانک کہیں سے باجا بجنے کی آواز آئی اور آتی ہی چلی گئی۔ سب ایک دَم ہڑبڑا کر اُٹھے۔ نیچے والی منزل سے مالک مکان نے غصے بھرے انداز میں چِلاّ کر پوچھا کہ یہ باجا کون بجا رہا ہے؟

اسلم میاں کو یقین تھا کہ یہ حرکت ان کے چھوٹے بیٹے گڈو کی ہے لیکن گڈو میاں تو ان کے ساتھ کھڑے تھے اور قسمیں کھا رہے تھے کہ یہ باجا اس نے نہیں بجایا۔ بہرحال اسلم میاں نے ان کی قسموں کا یقین نہ کیا اور گڈو میاں کی خوب دھنائی کی۔ گڈو میاں نے رو رو کر پورا محلہ سر پر اُٹھا لیا۔ آخر کار مالک مکان نے اوپر آکر کہا کہ بقیہ دھنائی صبح کر لیجیے گا، اس وقت تو سب کو سونے دیں۔

اگلی رات کو پھر ایک واقعہ پیش آگیا۔ سب لوگ بے خبر سورہے تھے تو کوئی گانا گانے لگا۔ اسلم میاں گہری نیند سے بیدار ہوئے اور بِھنّا کر بچوں کے کمرے کی طرف لپکے تاکہ اس وقت گانے والے کی اچھی طرح مرمت کی جائے لیکن ان کے تینوں بچے تو بے خبر سوئے پڑے تھے۔ وہ واپس پلٹے اور کچھ سوچتے ہوئے نیچے صحن میں جھانکا۔ وہاں مالک مکان کمر پر ہاتھ رکھے تیوری چڑھائے کھڑے نظر آئے۔

”میں نے پوچھا، یہ گانا کون گا رہا ہے؟“ انھوں نے اسلم میاں کی صورت دیکھتے ہی پوچھا۔

”کک…. کوئی نہیں، ہمارے بچے تو سو رہے ہیں، میں تو یہ سمجھا کہ شاید آپ کے گھر میں کوئی گا رہا ہے۔“ اسلم میاں نے ذرا گڑبڑا کر جواب دیا۔

”جی نہیں حضرت! ہمارے گھر میں کوئی اس وقت گانا نہیں گاتا بلکہ اس وقت تو کیا؟ کسی وقت بھی نہیں گاتا۔ آپ ذرا اپنے بچوں کو سمجھا لیجیے۔“ مالک مکان چبا چبا کر بولا۔ اتنے میں کسی عورت کے ہنسنے کی آواز آئی۔

”لیجیے، سن لیں۔ اب آپ کی بیگم بھی ہنس رہی ہیں، بہت خوب….“ مالک مکان بھڑک اُٹھا۔

”جی نہیں وہ ایسے نہیں ہنستیں، کیا میں اپنی بیوی کی ہنسی نہیں پہچان سکتا؟“ اسلم میاں بھی تِلمِلا گئے۔

”ارے تو کیا آپ عورتوں کی آواز میں ہنس رہے ہیں؟“ مالک مکان لڑائی پر آمادہ تھا۔

”آپ کی بیگم ہنس رہی ہوں گی۔“ اسلم میاں چڑ کر بولے۔

”ارے جناب! وہ بے چاری کیسے ہنس سکتی ہے؟ جب سے آپ لوگ کرائے دار بن کر آئے ہیں، ہم لوگ تو ہنسنا ہی بھول گئے ہیں۔“ مالک مکان نے بے چارگی سے کہا۔

”اور ہاں! براے مہربانی کل ہی سے اپنے لیے نیا مکان تلاش کرنا شروع کردیں۔ ہم تو آپ لوگوں سے اُوب گئے ہیں۔“ مالک مکان نے اندر کا رُخ کرتے ہوئے اسلم میاں کے سر پر ایک بم پھوڑا۔

اسلم میاں بھی غصے سے کھولتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چل دیے۔

٭….٭

”لیجیے بہن! اپنے مکان کی چابیاں…. ہم لوگ تو جارہے ہیں لیکن ایک مشورہ ہے کہ آپ اپنے گھر میں خاص طور پر اوپر والی منزل میں کسی بزرگ سے دُعا کروا لیجیے تاکہ آپ کا مکان آسیب سے پاک ہوجائے۔“ اسلم میاں کی بیگم نے مالک مکان کی بیگم کو چابیاں پکڑاتے ہوئے کہا۔

”آسیب تو آپ کے ساتھ ہی جا رہے ہیں۔“ مالک مکان کی بیگم نے ان کے بچوں کو گھورتے ہوئے کہا۔

”اونہہ….!“ اسلم میاں کی بیگم سر جھٹک کر اپنے بچوں کا ہاتھ تھام کر باہر نکل گئیں۔

یہاں ان کے میاں مالک مکان سے الوداعی ملاقات کررہے تھے جو ابھی ابھی گھر میں داخل ہوئے تھے۔

”بھئی جاتے جاتے میں معذرت کرنا چاہتا ہوں، دراصل میرے بچے بہت ہی شرارتی ہیں۔“ اسلم میاں مالک مکان سے کہہ رہے تھے۔

”چلیے معاف کیا۔“ مالک مکان نے رُکھائی سے کہا۔

”اجازت….؟“ اسلم میاں نے پوچھا۔

”جی بالکل…. اللہ حافظ۔“ مالک مکان نے کہا تو اسلم میاں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بیرونی دروازے سے باہر نکل آئے اور سامنے کھڑی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔

٭….٭

مالک مکان نے اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے آواز لگائی: ”چھوٹو! جاﺅ باہر کا دروازہ بند کر دو۔“

اندر کے کمرے سے ایک چھوٹا سا بچہ گھٹنوں کے بل باہر آیا اور دروازے کی طرف بڑھا۔ اس نے اپنا ہاتھ لمبا کیا اور دروازے کی اونچائی پر لگی چٹخنی بند کردی اور پھر واپس گھٹنوں کے بل اندر جانے لگا۔

باپ نے محبت بھرے انداز میں اُسے گود میں لے لیا اور اس کے گھنے بالوں میں چھپے چھوٹے چھوٹے نرم سینگوں کو پیار سے سہلانے لگا کیوں کہ بچپن میں اس کے سینگ بھی بالکل ایسے ہی تھے۔

٭….٭

اس تحریر کے نئے الفاظ

جھک جھک کرنا: تکرار، جھگڑا

اُوبنا: گھبرانا، اُکتانا

رُکھائی: بے رُخی، روکھا پن